|
کراچی _ بلوچستان میں ایک روز کے دوران کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے حملوں میں کم از کم 60 افراد کی ہلاکت کے مختلف واقعات نے سیکیورٹی ماہرین اور حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی شورش کا رواں سال کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اپنی حکمتِ عملی میں منظم اور تجربہ کار ظاہر ہو رہی ہیں۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اندازہ تھا کہ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں 26 اگست کو سیکیورٹی فورسز پر حملے کر سکتی ہیں لیکن انہیں قطعی یہ اندازہ نہیں تھا کہ بی ایل اے صوبے کے طول و عرض میں کارروائیاں کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔
پولیس افسر نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ایسا لگتا ہے کہ بی ایل اے نے اس دن اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لیے مہینوں تیاری کی تھی۔"
اتوار کی شب سے ہی بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا آغاز ہو گیا تھا لیکن پیر کو بی ایل اے کی صوبے کے مختلف اضلاع میں کارروائیوں کے نتیجے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے۔
کالعدم بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اسے 'آپریشن ہیروف' کا نام دیا ہے۔
واضح رہے کہ بی ایل ایل کے دو دھڑے ہیں۔ جس دھڑے کے ترجمان جیئند بلوچ ہیں اس کی سربراہی بشیر زیب کر رہے ہیں جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی حیر بیار مری کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جوابی کارروائیوں اور کلیئرنس آپریشنز کے دوران 21 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
حملوں کے دن کی اہمیت
بلوچستان کی شورش کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے کے لگ بھگ 10 اضلاع میں متعدد حملوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فعال کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں اپنے رہنماؤں کی برسی کے موقع پر پُرتشدد حملے کرنے کی روایات پر عمل پیرا ہیں۔
خطے میں شدت پسندی کے موضوعات پر تحقیق کرنے والے اسلام آباد میں قائم ادارے 'دی خراسان ڈائری' سے وابستہ محقق امتیاز بلوچ کہتے ہیں بلوچستان میں پیر کو ہونے والی کارروائیوں کا تعلق نواب اکبر بگٹی کی 18 ویں برسی سے تھا۔
اکبر بگٹی 26 اگست 2006 کو ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے درمیانی پہاڑی علاقے ترتانی میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔
SEE ALSO: 'ایک چکر لگا آؤں اُس کے بعد کچھ دن گھر پر رہوں گا،' بلوچستان واقعے میں ہلاک تاجر کی اہلیہ سے آخری گفتگواکبر بگٹی بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ اور گورنر کے عہدوں پر فائز رہنے والے ایک مقبول بلوچ سیاسی رہنما تھے جن کی ہلاکت کے بعد صوبے میں قوم پرستانہ علیحدگی اور شدت پسندانہ تحریک میں تیزی آ گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امتیاز بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جن رہنماؤں کی برسی کے موقع پر عموماً بم دھماکے ہوتے ہیں، ان میں نواب اکبر بگٹی، بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما غلام محمد بلوچ، بی ایل اے کے بانی رہنما بالاچ مری اور بی ایل اے کے فیلڈ کمانڈر اسلم اچھو شامل ہیں۔
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں 14 اگست کو پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔
حملے کہاں ہوئے اور کون نشانہ بنا؟
بلوچستان کے حکام، صحافیوں، ٹرانسپورٹرز اور سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بی ایل اے کے شدت پسندوں نے بیک وقت صوبے کے متعدد اضلاع لسبیلہ، مستونگ، قلات، گوادر اور تربت میں لیویز، پولیس تھانوں، سیکیورٹی فورسز کے کیمپوں اور سرکاری املاک کو نشانہ بنا کر حملے کیے۔
بی ایل اے کے شدت پسندوں کی جانب سے قلات شہر میں لیویز فورس کے ایک تھانے اور قبائلی رہنما کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا۔
حکام کے مطابق قلات میں مجموعی طور پر 11 افراد کی لاشیں اسپتال لائی گئیں جن میں سے لیویز فورس کے چار، پولیس کے ایک اہلکار اور حکومت کے حامی قبائلی رہنما ملک ازبر کی لاش شامل ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 60، اقوام متحدہ کی شدید مذمت ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہقلات سے متصل ضلع مستونگ میں بھی لیویز فورس کے تھانے پر حملہ کیا گیا۔ مگر اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر ضلع گوادر میں جیونی کے علاقے میں سنٹ سر پولیس اسٹیشن پر بھی اتوار کی شب مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
صحافی اور محقق کیا بلوچ کافی عرصے سے بلوچ عسکریت پسندی کی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بی ایل اے نے پہلی مرتبہ لسبیلہ اور موسیٰ خیل جیسے پرامن سمجھے جانے والے اضلاع میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔
ان کے بقول موسیٰ خیل میں حملہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ مسلح گروہ پنجاب کے قریب بھی اپنی پہنچ کو بڑھا رہے ہیں۔
پنجاب کے شہریوں پر حملے کیوں؟
کالعدم بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے اتوار کی شب بلوچستان کو ملک کے دیگر تین صوبوں سے ملانے والی اہم شاہراہوں کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ سکھر شاہراہوں کی ناکہ بندی کر کے گاڑیوں کو روکا اور تلاشی لی۔
پختون اکثریتی ضلع موسیٰ خیل میں این 70 شاہراہ پر درجنوں مسلح افراد نے مختلف مقامات پر سڑک بند کی، مسافر بسوں، گاڑیوں اور مال بردار ٹرکوں کو روک کر مسافروں کو شناخت معلوم کرنے کے بعد 23 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا جن میں سے اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔
عسکریت پسندوں نے ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ریلوے پل کو بھی دھماکہ خیز مواد سے اڑایا جب کہ پل کے قریب سے چھ افراد کی لاشیں بھی ملیں۔ مقتولین کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق شاید پنجاب سے ہے۔
بلوچستان میں دو دہائی سے جاری شدت پسندی کے واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، حجاموں اور مزدوروں کو بڑی تعداد میں قتل کیا جا چکا ہے۔
رواں برس اپریل میں بھی بلوچ عسکریت پسندوں نے ضلع نوشکی میں ایک بس سے شناخت معلوم کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو قتل کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی فورسز، چینی باشندوں اور ترقیاتی منصوبوں پر حملوں کی طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر حملے کر کے علیحدگی پسند تنظیمیں پیغام دینا چاہتی ہیں کہ صوبے میں باہر سے آنے والے محفوظ نہیں ہیں۔
اسلام آباد کے ایک تحقیقاتی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں بی ایل اے کی جانب سے ماضی کے بڑے حملوں کے برعکس پیر کو کیے جانے والے حملوں کے لیے اہم شاہراہوں کو بند کرنا اہمیت کا حامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے حملوں میں ایک منفرد بات یہ ہے کہ زیادہ تر حملے پنجاب کے قریب اضلاع میں ہوئے ہیں جس سے وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ شورش کو پنجاب تک یا اس کے قریب تک پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بی ایل اے نے یہ حملے ایسے وقت میں کیے ہیں جب بلوچ لبریشن فرنٹ نامی دوسری بڑی اور اہم عسکریت پسند تنظیم نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے گروہ کے بانی رہنما واحد قمبر کو ایران کے سرحدی علاقے سے سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا ہے۔
البتہ پاکستان اور ایران کی جانب سے اس معاملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
اس سے قبل بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نامی عسکریت پسند گروہ کے سربراہ گلزار امام عرف شبنے کی گرفتاری اور ان کے ڈپٹی سربراہ سرفراز بنگلزئی کے ہتھیار ڈالنے کے واقعات سامنے ہوچکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گرفتار علیحدگی پسند رہنماؤں سے دورانِ تفتیش حاصل کی جانے والی معلومات سے سیکیورٹی اداروں کو بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
کوئٹہ شہر میں کمپیوٹر کی خرید و فروخت کا کاروبار سے وابستہ محمد اسماعیل کی پیدائش تو کوئٹہ کی ہے۔ مگر ان کے والدین ساٹھ کی دہائی میں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے کوئٹہ منتقل ہوئے تھے۔ اسماعیل کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ان عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے جن کا سیاست اور سیکورٹی معاملات سے کوئی لینا دینا تک نہیں۔
ان کے بقول پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے پہلے ہی شہر چھوڑنے پر مجبور ہیں، اس طرح کے واقعات انہیں مزید خوف زدہ کر دیتے ہیں۔