بھارت میں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو اب ایک نئی بیماری کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ نئی بیماری ’بلیک فنگس‘ یا سیاہ پھپھوند ہے، جسے انگریزی میں ’میوکرمائکوسس‘ کہتے ہیں۔
حکومت نے ڈاکٹروں کو ہدایت کی ہے کہ اسپتالوں میں چوں کہ زیرِ علاج کرونا مریضوں میں بلیک فنگس کی علامات کے واقعات سامنے آئے ہیں، اس لیے وہ اس پر نظر رکھیں۔ یہ بیماری یوں تو شاذ و نادر ہوتی ہے، لیکن اس میں مریضوں کی موت کا اندیشہ ہوتا ہے۔
حکومت کے ادارے ’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘ (آئی سی ایم آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر جو کرونا، ذیابیطس یا مدافعتی نظام کے کمزور پڑ جانے والے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، وہ بلیک فنگس کی ابتدائی علامات، جیسے کہ "سائنس" میں درد یا ناک کے ایک طرف کے بند ہو جانے، نصف سر میں درد، چہرے پر سوجن یا سُن ہو جانے یا دانتوں میں درد پر نظر رکھیں۔
رپورٹس کے مطابق بڑی تعداد میں ایسے افراد بلیک فنگس کا شکار ہو رہے ہیں جو کرونا سے صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے لوگوں کی بینائی ختم ہو جاتی ہے اور دیگر سنگین طبی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، جس کے سبب ان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
بلیک فنگس کی علامات
ڈاکٹروں کے مطابق، آنکھوں میں سوجن اور ناک میں سیاہ پھپھوند جیسی ابتدائی علامتیں دکھائی دینے کے بعد متاثرہ شخص کی فوراً بایوپسی کرانی چاہیے اور علاج شروع کر دینا چاہیے۔ بخار، کھانسی، سر درد، سانس لینے میں پریشانی، خون کی قے، دانتوں میں درد، سینے میں تکلیف بھی بلیک فنگس کی ابتدائی علامتیں ہیں۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، گجرات، مہاراشٹر، بنگلور، حیدرآباد، پونے اور دہلی میں بلیک فنگس کے سیکڑوں متاثرین کا علاج چل رہا ہے اور ان میں متعدد افراد کی جان بچانے کے لیے ان کی آنکھ نکال دی گئی، جب کہ بعض لوگوں کے جبڑوں کا علاج بھی کرنا پڑا۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ کوئی متعدی بیماری نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔
بلیک فنگس کے اسباب
دہلی کے ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم سی شرما کے مطابق کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد پر بلیک فنگس کا حملہ اس لیے زیادہ ہو رہا ہے کیوں کہ کرونا کے مریضوں کو انتہائی نگہداشت والے یونٹ (آئی سی یو) میں طویل عرصے تک علاج کے دوران اینٹی فنگل دوائیں دی جاتی ہیں جس سے ان کی قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم ڈاکٹر شرما کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ گھر پر رہ کر کرونا کا علاج کرا کر صحت یاب ہوئے ہیں، ان میں اس بیماری کے خطرات کم ہیں اور اگر ایسا کوئی کیس سامنے آئے تو ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹروں کے مطابق، کرونا کے علاج کے دوران اسٹیروئیڈز کے استعمال اور مریضوں میں ذیابیطس کی شکایت بھی بلیک فنگس کا شکار ہونے کی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔
آئی سی ایم آر کی ایک سائنس دان اپرنا مکھرجی کے مطابق یہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے، البتہ اس کے بارے میں معلومات ہونی چاہیئں اور اگر علامات دکھائی دیں تو ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔
’سینٹر آف ایڈوانس ریسرچ ان میڈیکل مائیکولوجی‘ چنڈی گڑھ کے سربراہ ارونالوک چکرورتی کے مطابق، کرونا سے پہلے بھی بھارت اور دیگر ممالک میں یہ بیماری موجود تھی۔ اس کی ایک وجہ لاکھوں افراد کا ذیابیطس کا مریض ہونا ہے۔
ممبئی میں مقیم ڈاکٹر پی سریش کے مطابق، ان کے اسپتال میں گزشتہ دو ہفتوں میں ایسے 10 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ جب کہ کرونا وبا کی آمد سے قبل ایک سال میں بلیک فنگس کے پانچ مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جن 10 مریضوں کا علاج کیا گیا، ان میں سے بعض کو ذیابیطس تھا یا وہ ایسی دوائیں لے رہے تھے جن سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ ان میں سے بعض کی موت واقع ہو گئی اور بعض کی بینائی چلی گئی۔
جب کہ ممبئی کے ایک اور ڈاکٹر نشانت کمار کہتے ہیں کہ پہلے ان کے پاس سال میں ایسا کوئی ایک مریض آتا تھا، مگر اب ہفتے میں ایک آ رہا ہے۔
کالرا ہاسپٹل نئی دہلی کے ڈاکٹر نونیت کالرا کے مطابق، بلیک فنگس قوتِ مدافعت کم ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کرونا کے علاج کے دوران جو دوائیں دی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے بھی یہ ہوتا ہے۔
جب کہ صفدر جنگ اسپتال کے ڈاکٹر سید احمد خاں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسپتالوں میں آلات کی مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی بلیک فنگس ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مریض کو آکسیجن دیتے وقت یا وینٹی لیٹر پر لے جاتے وقت صفائی ستھرائی پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق اسپتالوں میں مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے مریض فنگس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گھر پر علاج کراتے ہیں، ان میں اس کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
تعلیمی ادارے کرونا سے متاثر
دریں اثنا کرونا کی دوسری لہر میں تعلیمی ادارے محفوظ نہیں رہے اور دینی درس گاہوں کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی ادارے بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں۔
اس حوالے سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے موجودہ اور سابق اسٹاف میں سے اب تک 43 افراد اپنی جان سے جا چکے ہیں۔
اس صورتِ حال سے یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام پریشان ہیں اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ اس صورتِ حال پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی کا خط
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘ کے سربراہ بلرام بھارگون کے نام ایک مکتوب ارسال کرکے صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی کیمپس اور اس کی قریبی کالونیوں میں کرونا کے حوالے سے تفصیلات پیش کی ہیں۔
ان کے مطابق 16 فیکلٹی ممبرز اور بڑی تعداد میں سبکدوش اساتذہ اور ملازمین اب تک کرونا کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ سول لائنز کے علاقے اور دوسری متصل کالونیوں میں کرونا کی کوئی نئی قسم پھیلی ہوئی ہے۔
ان کے مکتوب کے مطابق یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج نے آئی سی ایم آر کو نمونے ارسال کیے ہیں جس کی جانچ کی ضرورت ہے تاکہ اس کی روشنی میں ضروری اقدامات کیے جائیں۔
اسی درمیان جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے پرنسپل شاہد علی صدیقی نے بتایا ہے کہ گزشتہ 15 دن میں اسپتال کے 25 ڈاکٹروں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اس وقت تین ڈاکٹر زیرِ علاج ہیں جب کہ باقی صحت یاب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی کئی موجودہ و سابق اساتذہ کی اموات ہو چکی ہیں جن میں معروف تاریخ داں پروفیسر رضوان قیصر اور شفیق انصاری بھی شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق دہلی یونیورسٹی کے متعدد کالجز میں بھی کئی موجودہ و سابق اساتذہ کرونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
دریا میں تیرتی لاشیں
اسی درمیان اتر پردیش کے ہمیر پور اور غازی پور جب کہ بہار کے بکسر میں دریا میں متعدد لاشیں تیرتی ہوئی پائی گئیں۔
بکسر کے ضلع مجسٹریٹ اشوک کمار کے مطابق دریا سے 40 لاشیں دریافت ہوئی ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ چار پانچ روز پرانی ہیں۔ جو پھول گئی ہیں اور ان سے بدبو آرہی ہے۔
انہوں نے مقامی انتظامیہ کو دریا کی صفائی اور لاشوں کی آخری رسومات انجام دینے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہار میں لاشوں کو دریا میں بہانے کا رواج نہیں ہے۔ اس لیے ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لاشیں اترپردیش سے بہہ کر آئی ہوں گی۔
بعض رپورٹس کے مطابق بہت سے کم آمدن والے افراد کے پاس میتوں کی آخری رسومات انجام دینے کے لیے رقوم نہیں ہیں یا پھر چتاؤں کے لیے جگہیں اور لکڑیاں کم پڑ گئی ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگوں نے لاشیں دریا میں بہا دی ہیں۔ البتہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔