امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اُنہوں نے افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے تفصیلی جائزے کا حکم دیا ہے جہاں امریکہ نے دو دہائیوں سے جاری جنگ اگست میں ختم کر دی تھی۔
بدھ کو واشنگٹن کے قریب فارن سروس انسٹیٹیوٹ میں قانون سازوں اور سفارت کاروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ "میں نے انخلا کی منصوبہ بندی، عمل درآمد اور لوگوں کو منتقلی کے عمل کے مفصل جائزے کا حکم دیا ہے۔"
اُنہوں نے افغانستان سے انخلا کے معاملے پر محکمۂ خارجہ کی کوششوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ کہا کہ محکمے کو اس سے کچھ سیکھنا بھی چاہیے کہ آئندہ جنگ زدہ علاقے سے محفوظ انخلا کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ "اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم اس سے کچھ مختلف کر سکتے تھے؟ کیا ہم فلاں اقدام اُٹھا سکتے تھے؟ کیا ہمیں کوئی فیصلہ پہلے کرنا چاہیے تھا اور کیا ہم اس فیصلے کو جلدی کر سکتے تھے؟"
امریکی وزیرِ خارجہ نے مفصل جائزے کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس جائزے سے محکمۂ خارجہ کے نئے ملازمین، ہمارے افغان دوست اور شراکت دار استفادہ کر سکیں گے کہ وہ کس طرح آئندہ اس طرح کی صورتِ حال میں بہتر منصوبہ بندی کر کے صحیح وقت پر درست فیصلہ لے سکیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ اگست کے وسط میں طالبان کی غیر متوقع پیش قدمی اور کابل پر کنٹرول کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عجلت میں جنگ زدہ ملک سے انخلا دیکھنے میں آیا تھا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 15 اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول اور اشرف غنی کے ملک سے جانے کے بعد لگ بھگ ایک لاکھ 24 ہزار امریکی شہریوں، افغان شہریوں اور دیگر افراد کو خصوصی پروازوں کے ذریعے ملک سے نکالا تھا۔
انخلا کے عمل کے دوران کابل ایئرپورٹ پر بدنظمی بھی دیکھنے میں آئی تھی جب سیکڑوں افغان شہری ملک سے نکلنے کے لیے رن وے پر آ گئے تھے۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ محکمۂ خارجہ کے انسپکٹر جنرل افغانستان سے امریکی سفارتی آپریشنز کے خاتمے سمیت افغان شہریوں کے امریکہ میں بطور پناہ گزین خصوصی امیگرنٹ ویزا پروگرام اور اُن کی آبادی کاری کا بھی جائزہ لیں گے۔