طیارے بنانے والی معروف کمپنی بوئنگ نے ایک ہفتہ قبل ایک راکٹ کے ذریعے خلابازوں کو لے جانے والے جس خودکار کیپسول کو تجرباتی طو پر زمین کے مدار میں گردش کرنے والے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب روانہ کیا تھا، وہ اپنا مشن کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آیا ہے۔
ناسا اپنے خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے اور واپس زمین پر لانے کے لیے آج کل ایک پرائیویٹ امریکی کمپنی سپیس ایکس کی خدمات حاصل کر رہا ہے، جب کہ اپنا راکٹ پروگرام ختم کرنے کے بعد ناسا اس سلسلے میں روسی خلائی ادارے کی سروسز استعمال کر رہا تھا، جس پر بھاری معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان خدشات کا سامنا کرنے کے لیے بھی چوکس رہنا پڑتا تھا جو ایک حریف ملک سے ہو سکتے ہیں۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ناسا نے دو مقامی کمپنیوں سپیس ایکس اور بوئنگ کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ خلائی شعبے میں آگے بڑھیں۔ سپیس ایکس نے تیزی دکھائی اور جلدی سے تجرباتی مراحل طے کر لیے، جب کہ بوئنگ کو اپنے ابتدائی تجربات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پہلے دو تجربات سافٹ ویئراور دیگر تکنیکی مشکلات کی وجہ سے ناکام رہے۔ تیسرے تجربے کی کامیابی سے اب بوئنگ کے لیے خلائی پروازوں کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
ناسا نے اس کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس کے پاس خلابازوں کو خلائی مہمات پر بھیجنے کے لیے ایک متبادل موجود ہے۔
بوئنگ نے خلابازوں کے سفر کے لیے اپنے تیار کردہ کیپسول کا نام سٹار لائنر رکھا ہے۔ اس کیپسول میں پانچ سے سات خلابازوں کے لیے سہولیات موجود ہیں اور یہ مکمل طور پر خودکار ہے۔ تاہم خلاباز بھی اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں اور اسے ریموٹ کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
سٹار لائنر کے اس تجربے میں کسی خلاباز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم اس میں انسان نما ایک مسجمہ رکھا گیا تھا۔ یہ کیپسول اپنے اس سفر کے دوران بین الااقوامی خلائی اسٹیشن سے جڑا اور وہ تمام مراحل طے کیے جن سے خلاباز گزرتے ہیں۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود خلابازوں نے سٹارلائنر کو جڑنے کے بعد اسے ہر طرح سے پرکھا اور تمام درکار ٹیسٹ کیے جس کے بعد انہوں ںے اس خلائی سفر اور مہمات کے لیے موزوں قرار دیا۔
اسٹیشن کے خلابازوں نے خلائی اسٹیشن پر بوئنگ کی خلائی مشین کے پانچ دنوں کے قیام کے دوران اسٹار لائنر کے مواصلات اور کمپیوٹر سسٹم کا تجربہ کیا۔ انہوں نے سینکڑوں پاؤنڈ خوراک اور دیگر سامان بھی اتارا جو بوئنگ کیپسول کے ذریعے بھیجا گیا تھا، پھر اس کیپسول کو خالی ایئر ٹینکوں اور دیگر ضائع شدہ سامان سے بھر دیا تاکہ اسے زمین پر پہنچا دیا جائے۔
SEE ALSO: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے بوئنگ کی تجرباتی پرواز
سٹار لائنر نے واپسی کا سفر نسبتاً کم وقت میں طے کیا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے الگ ہونے کے چار گھنٹوں کے بعد وہ پیراشوٹ کے ذریعے نیو میکسیکو کے ایک صحرائی علاقے میں اتر گیا، جہاں زمینی عملہ اس کا پہلے سے منتظر تھا۔
جیسے ہی سٹار لائنر زمین کی سطح سے ٹکرایا تو ہوسٹن میں قائم زمینی مرکز میں موجود انجئیرز اور سائنس دانوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔
ناسا کے کمرشل کریو کے ڈائریکٹر سٹیو سٹیچ نے اسے انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ناقابل یقین آزمائشی پرواز تھی۔
بوئنگ کے نائب صدر مارک نیپی کا اس کامیاب تجربے پر کہنا تھا کہ اگر اس کامیابی کو ایک سے دس کے سکیل پرپرکھا جائے تو میں اس آزمائشی تجربے کو 15 نمبر دوں گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کامیابی کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ ناسا کے خلاباز اس سال کے آخر تک سٹار لائنر کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جا سکیں گے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے خلاباز باب ہائنس نے سٹار لائنر کو واپسی کی پرواز پر جاتے ہوئے دیکھ کر وائرلیس پر اپنے زمینی مرکز سے کہا کہ ’’ہمیں اسے جاتے دیکھ کر تھوڑا دکھ ہوا ہے‘‘۔
بوئنگ کو ا پنے اس تیسرے تجربے پر مجموعی طور پر 60 کروڑ ڈالر صرف کرنے پڑے ہیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)