رسائی کے لنکس

عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست خارج؛ ’سپریم کورٹ کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ختم ہوا‘


سپریم کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف حکومت کی جانب سے دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی۔

بدھ کو پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کے موقع پر مظاہرین اور پولیس میں تصادم کے حوالے سے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جو کچھ کل ہوا وہ آج ختم ہو چکا ہے۔ عدالت انتظامیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرتی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ختم ہوا ہے۔ کیس کا ایسا حکم نامہ جاری کیا جائے گا جو مستقبل کے لیے مثال بنے۔ عوام کے تحفظ کے لیے عدالت ہر وقت دستیاب ہے۔ چھاپے مارنے سے روکا تھا۔ عدالت چھاپے مارنے کے خلاف حکم برقرار رکھے گی۔ سٹرک پر صرف کارکن تھے رہنما نہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی نقوی بھی شامل تھے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے درخواست میں کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس اپنی تقاریر میں کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا حالاں کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو سرینگر ہائی وے پہنچنے کا کہا تھا۔

دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ پرامن احتجاج کی یقین دہانی پر پی ٹی آئی کو اجازت دی گئی تھی لیکن عدالتی حکم کے بعد عمران خان نے پیغام جاری کرکے کارکنوں کو ڈی چوک جانے کا کہا۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ممکن ہے کہ عمران خان کو پیغام درست نہ پہنچا ہو۔ اس بیان کے بعد کیاہوا؟ عدالت کے علم میں آیا ہے کہ شیلنگ ہوئی اور لوگ زخمی بھی ہوئے۔ عدالتی حکم میں فریقین کے درمیان توازن کی کوشش کی گئی تھی۔

، چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک ماہ میں 33جلسے کر چکی ہے۔ تمام جلسے پرامن تھے ۔ توقع ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوگا۔ پاکستان کے عوام کو آئین کے آرٹیکل 15 ، 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں۔ انتظامیہ کوئی بھی غیر آئینی گرفتاریاں نہ کرے اور نہ ہی چھاپے مارے جائیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے ٹی وی ٹاک شوز میں تحریکِ انصاف کی قیادت کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان کا تذکرہ بھی کیا اور بتایا کہ ٹاک شوز میں غدار اور چور چور کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسانیت کا احترام ہونا چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس معاملے میں ہم نہیں جائیں گے۔

ڈی چوک پر آنے والے مظاہرین اور پولیس کی کارروائی کے حوالے سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ حکومت نے ہی پی ٹی آئی کے جلسوں کو تحفظ فراہم کیاتھا لیکن ان کے کارکنوں کے حملوں میں 31پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز فائر بریگیڈ اور بکتر گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ حکومت کو رات کو فوج طلب کرنی پڑی تھی۔ کروڑوں روپے کی سرکاری املاک کو تباہ کیا گیا۔ عمران خان نے دھرنا دینے کے بجائے چھ دن کی ڈیڈلائن دی اور کارکنوں کو واپس جانے کا نہیں کہا۔ ان کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو کوئی بھی عدالتی یقین دہانی پر عمل نہیں کرے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ کل ہوا وہ آج ختم ہوچکاہے۔ عدالت انتظامیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرتی۔ عوام کے تحفظ کے لیے عدالت ہر وقت دستیاب ہے۔ بلیوایریا میں گرین بیلٹس میں لگنے والی آگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آگ آنسو گیس سے بچنے کے لیے لگائی گئی تھی۔ کارکنوں کو قیادت ہی روک سکتی ہے جو موجودنہیں تھی۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف کارروائی کی حکومت کی درخواست نمٹاتے ہوئے ہدایت کی کہ حکومت کل والے عدالتی حکم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا کام خود کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ کیس نمٹا رہی ہے۔ مختلف سڑکیں اور راستے کھل چکے ہیں۔ عدالت نے ضروری سمجھا تو کیس بحال کر دے گی۔ سیاسی درجۂ حرارت زیادہ ہے اس وقت مداخلت کرنا درست نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز تحریکِ انصاف کی دائر کردہ پٹیشن پر انہیں ایچ نائن اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کی ہدایت کی تھی۔

پولیس کو تین گھنٹوں میں سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا گیا تھا البتہ عمران خان نے کارکنوں کو ریڈ زون کے قریب ڈی چوک میں پہنچنے کا کہا جس کے بعد تمام رات پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی رہی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد پہنچ کر بھی ڈی چوک نہیں گئے اور جناح ایونیو پر ہی حکومت کو انتخابات کے اعلان کے لیے چھ دن کا الٹی میٹم دے کر اپنی رہائش گاہ بنی گالہ روانہ ہوگئے تھے، جس کے بعد ان کے کارکن بھی کچھ دیر بعد منتشر ہوگئے تھے۔ احتجاج کے دوران بلیوایریا میں متعدد درختوں اور پودوں کو آگ لگائی گئی جب کہ ایک میٹروسٹیشن، فائربریگیڈ کی دو گاڑیوں اور پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق اس ہنگامہ آرائی کے دوران 31 پولیس اہل کار زخمی ہوئے جب کہ تحریکِ انصاف نے بھی کئی کارکنوں کے زخمی ہونے کا کہا ہے۔

XS
SM
MD
LG