دنیا کی تین بڑی طاقتوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری سے متعلق اس ملک پر عائد پابندیوں کو برقرار رکھیں گے۔
تہران اور امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے درمیان ایک جوہری معاہدے میں دیے گئے نظام الاوقات کے تحت یہ پابندیاں اکتوبر کے مہینے میں ختم ہو جانی تھیں۔ لیکن یہ معاہدہ اس وقت التواء میں پڑا ہوا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں تینوں یورپی اتحادیوں نے جو، ای۔3 کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جنہوں نے جوہری معاہدہ کرانے میں مدد بھی کی تھی، کہا ہے کہ ایران کی جانب سے معاہدے کی شرائط کی مسلسل اور شدید نوعیت کی عدم تعمیل کے براہ راست ردعمل میں یہ پابندیاں برقرار رکھیں گے۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس جوہری معاہدے کو سرکاری طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے کہا جاتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کے خصوصی ایلچی کی تہران میں ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقاتان اقدامات کے تحت ایران کے ایسے بیلسٹک میزائل بنانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملک کی جانب سے ایران سے ڈرون اور میزائل خریدنے، اسے بیچنے یا منتقل کرنے پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ ان پابندیوں میں جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام میں ملوث متعدد ایرانی افراد اور اداروں کے اثاثے منجمد کیا جانا بھی شامل تھا۔
ایران نے بیلسٹک میزائل تیار کرکے اور ان کی آزمائش کرکے اور روس کو یوکرین میں اس کی جنگ کے لیے ڈرونز دے کر ان پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
ای-3 کا کہنا ہے کہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران معاہدے کی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں کرتا۔آٹھ سال قبل ہونے والے جوہری معاہدے کے مطابق یہ پابندیاں اس سال 18 اکتوبر کو ختم ہونی تھیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے ایرانی وزارت خارجہ کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں اس نے یورپی فیصلے کو اشتعال انگیزی کی غیر قانونی کارروائی قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے تعاون میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔
وزارت نے کہا کہ یورپی فریقوں کے اقدامات سے کشیدگی کم کرنے اور جے سی پی او اے میں شامل ملکوں کے درمیان مزید تعاون کے لیے موزوں ماحول پیدا کرنے کی کوششوں پر یقینی طور سے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
2015 کے جوہری معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ ایران جوہری ہتھیار نہ بنائے۔ تہران اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے عوض اپنی یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامند بھی ہو گیا تھا۔
لیکن پھر 2018 میں امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے ہوئے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہو گئے کہ وہ ایک زیادہ بہتر معاہدے کے لیے بات چیت کریں گے۔ مگر یہ کبھی نہ ہو سکا۔ اور اس کے ایک سال بعد ایران نے بھی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی شروع کر دی اور اقوام متحدہ کے جوہری امور پر نظر رکھنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران اس وقت یورینیم کی تقریبا اس سطح پر افزودگی کر رہا ہے جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
معاہدے کی تجدید کے لیے ہونے والی باضابطہ بات چیت اگست 2022 میں ٹوٹ گئی تھی۔
SEE ALSO: ایک امریکی قیدی نے ساتھی ایرانی قیدی کی مہربانی کا بدلہ کیسے چکایا؟یہ پیش رفت ایک ایسے نازک وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ ، ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو حتمی شکل دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ جس میں جنوبی کوریا میں ایران کے چھ ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو واگذار کرنا بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اس بارے میں تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
جب کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ واشنگٹن اگلے مناسب قدم کے لیے اپنے یورپی اتحادیوں سے رابطے میں ہے۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس )