اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں ہونے والا بہیمانہ قتل حالیہ دنوں میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں سے ایک ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کے اضافے کے ساتھ ساتھ صنفی تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔
ملک کے دارالحکومت میں قتل ہونے والی نور مقدم کے آخری گھنٹے دہشت ناک تھے جہاں انہیں مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 27 برس کی نور مقدم نے کھڑکی سے چھلانگ بھی لگائی البتہ انہیں واپس گھسیٹا گیا۔ ان پر مزید تشدد کیا گیا اور بالآخر انہیں قتل کر کے ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ ان کے ایک بچپن کے دوست پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ملک کی ممتاز انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم ایک سفارت کار کی بیٹی تھیں۔ ان کا شمار معاشرے کی اشرافیہ میں ہوتا تھا۔ یہ پاکستان میں عورتوں کے خلاف بڑھتے تشدد کی ایک نشانی ہے۔
ان کے مطابق ملک میں تشدد کا نشانہ بننے والی اکثر خواتین کا تعلق نچلے طبقے سے ہے اور ان کی اموات کو ذرائع ابلاغ اس طرح رپورٹ نہیں کرتا۔
SEE ALSO: 'روتی عورت کا کردار تو ہر کوئی کر لیتا ہے، طاقت ور عورت بننا آسان نہیں'طاہرہ عبد اللہ نے کہا کہ گزشتہ ہفتے خواتین پر تشدد کے واقعات کی ایک لمبی فہرست دی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں عورتوں کے خلاف جنسی جرائم اور تشدد کے واقعات ایک خاموش وبا کی طرح ہیں جسے کوئی نہیں دیکھتا۔ کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔
پاکستان کی پارلیمان میں پیش ہونے والا گھریلو تشدد کے خلاف بل اس ماہ منظور نہیں ہو سکا اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے مارچ کے دوران گھریلو تشدد کی ہاٹ لائنز کے اعداد و شمار کے مطابق گھریلو تشدد کی شکایات میں 200 فی صد اضافہ ہوا تھا۔
تنظیم کے مطابق مارچ میں لاک ڈاؤن لگنے کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ برس میں عالمی معاشی فورم کے گلوبل جینڈر انڈیکس میں پاکستان کا درجہ 156 ممالک میں 153 تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق حکام عورتوں اور لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادیوں سمیت مظالم کے خلاف اقدامات میں ناکام رہے ہیں۔
نور مقدم کے معاملے میں پولیس نے ظاہر جعفر، جو ایک صنعت کار کے بیٹے ہیں، کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق نور کو شادی سے انکار کرنے پر قتل کیا گیا ہے تاہم اب تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق اس واقعے کی سنگینی اور بہیمانہ تشدد کے علاوہ یہ خوف کہ ملزم کا تعلق اونچے طبقے سے ہونے کے باعث وہ آزاد ہو سکتا ہے، نے بہت سے پاکستانیوں کو اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس واقعے کے بعد مختلف جگہوں پر احتجاج کیا گیا اور شمعیں جلائی گئیں جب کہ سوشل میڈیا پر #JusticeForNoor کا ہیش ٹیک کئی دنوں تک ٹرینڈ کرتا رہا۔
SEE ALSO: خدیجہ صدیقی کیس: ملزم شاہ حسین سزا پوری کیے بغیر کیسے رہا ہو گیا؟نور مقدم کے لیے شمعیں جلانے کے لیے جمع ہوئے مظاہرین میں سے ایک طالبہ زرقہ خان نے ’اے پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں مذہب کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اکیلے سڑک پر چلنے سے خوف آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اب گھر کے باہر اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں اور ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔