کبھی آنکھوں سے غصہ چھلکتا اور اگلے ہی لمحے تکلیف کا اظہار، اس کے چہرے کے تاثرات تیزی دے بدل رہے تھے۔ اسلام آباد کی نور مقدم قتل کیس کا ملزم ظاہر جعفر عدالت میں پیشی کے موقعے پر کمزور یا نڈھال دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
پیرکی صبح ہی اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں پولیس اور صحافیوں نے ڈیرے لگا لیے تھے۔ صبح ہونے والی بارش کی وجہ سے آسمان پر بادل تھے لیکن حبس اس قدر شدید تھا کہ بنا مشقت بھی پسینہ بہتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
عدالت کے باہر مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ اپنے جونیئرز کے ساتھ اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر بات کر رہے تھے۔
صحافی اس کیس میں ہونے والی اب تک کی پیش رفت پر بات کر رہے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس کیس میں ملزم کے والدین کو شامل کر کے انہیں ایک طرح کی چھوٹ دینے کی کوشش کی ہے کہ اب انہیں عدالت سے معصوم قرار دلایا جائے گا۔
بعض افراد اس اقدام کو پولیس کی بدنیتی قرار دے رہے تھے جب کہ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ دیت کی طرف ہی جائے گا۔
دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب ایک صحافی دوست نے اطلاع دی کہ پولیس ملزم کو لے کر روانہ ہو گئی ہے۔
سب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا پولیس والوں نے خود بتایا ہے۔ کچھ ہی منٹ بعد یہ اطلاع درست ثابت ہوئی اور پولیس ایک گاڑی میں ملزم کو لے کر پہنچ عدالت پہنچ گئی۔
اس کے بعد ملزم کے ارد گرد پولیس کے جوانوں نے گھیرا بنا لیا تاکہ کوئی اس کے قریب نہ آ سکے، لیکن یہ گھیرا عدالت کی عمارت کے قریب چھوٹا پڑ گیا اور صحافیوں کو ملزم کے قریب آنے کا موقع ملا۔
ملزم سے ایک بار پھر وہی سوالات شروع ہوگئے کہ ’’تم نے اس کو کیوں مارا، تم اس کیس کو کیسے لڑو گے، تم اس قتل کا اعتراف کرتے ہو‘‘۔
ظاہر جعفر ان تمام سوالات پر خاموش رہا لیکن ایک جگہ آگے کا راستہ کلئیر نہ ہونے پر جب اسے روکا گیا تو اس نے اپنے بازو پکڑے پولیس اہل کار کو گھور کر دیکھا۔ اتنے میں ایک وکیل قریب سے گزرا تو بھی ظاہر جعفر نے ایسے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
اچانک دھکم پیل کے درمیان ظاہر جعفر نے ایک جملہ بولا اور کہا کہ 'مائی لائف از ان ڈینجر' (میری زندگی خطرے میں ہے) اس کے بعد پولیس اہل کار اسے کھینچتے ہوئے اوپر والی منزل پر لے گئے۔
عدالت کی عمارت بجلی بند ہونے کی وجہ سے مکمل تاریک تھی، نامعلوم بجلی خود بند کی گئی تھی یا خراب تھی۔ کیوں کہ ظاہر جعفر کے آنے سے کچھ دیر پہلے تک بجلی بحال تھی لیکن اس کے آنے سے چند لمحے قبل ایک شخص بجلی کے باکس کو کھول کر بیٹھا تھا جس کے بعد بجلی مکمل طور پر بند ہو گئی اور اندھیرے میں اسے کمرۂ عدالت تک پہنچایا گیا۔
عدالت کی تمام کارروائی کے دوران شدید حبس کے دوران بجلی مکمل طور پر بند تھی جو سیکیورٹی کے نکتۂ نظر سے بھی محفوظ قرار نہیں جا سکتی۔
کمرۂ عدالت اتنے پولیس اہلکاروں، وکیلوں اور صحافیوں کے لیے ناکافی تھا جس کی وجہ سے ظاہر جعفر کو پولیس کے گھیرے میں برآمدے میں ہی کھڑا کر دیا گیا۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ظاہر جعفر کمرے کے باہر ہی تھا اور وہاں موجود خاتون اے ایس پی اپنے پولیس اہل کاروں کو بار بار کہتی رہیں کہ اسے اندر لے کر آئیں۔ اتنی دیر میں ظاہرجعفر نے بلند آواز میں جج صہیب بلال رانجھا کو کہا کہ مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
اس پر جج صہیب بلال رانجھا نے اسے اندر لانے کا کہا اور شدید دھکم پیل کے درمیان اسے جج کے ڈائس کے قریب پہنچا دیا گیا۔
پولیس کے انسپکٹر لیگل ساجد چیمہ نے عدالت سے درخواست کی کہ ابھی ملزم سے اس کا موبائل فون ریکور کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کیس میں مزید چار دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے۔
پولیس نے عدالت میں بتایا کہ چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے اس کی اعانت کی ہے۔ اس موقع پر ملزم کے وکیل عنصر نواز ملک نے کہا کہ موبائل فون پہلے ہی پولیس کے حوالے کیا جا چکا ہے جب کہ چار دفعات دیگر ملزمان کے لیے ہیں۔ ان کا میرے موکل سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا اسے جوڈیشل کر دیا جائے۔
نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے عدالت سے کہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ ایک لڑکی کو ہولناک طریقے سے قتل کیا گیا ہے۔ لہذٰا اس کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کو زیادہ سے زیادہ ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے ملزم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔
سماعت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر وہی دھکم پیل اور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ عدالت سے واپسی پر دو اہل کاروں نے ملزم ظاہر کو بازو سے پکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے جب وہ عمارت سے باہر آیا تو اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔
میڈیا کے سوالات بھی لگاتار جاری تھے لیکن ملزم ظاہر جعفر کسی کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ سو میٹر کے فاصلے تک جاتے جاتے پولیس اہل کار ایک طرح سے اسے گھسیٹ رہے تھے اور اس کے چہرے پر دقت کا احساس برقرار تھا جس کے بعد اسے عام ڈبل کیبن گاڑی میں پیچھے بٹھایا گیا اور تھانہ منتقل کر دیا گیا۔
ایک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ ملزم کو بکتر بند گاڑی میں نہیں لانا چاہیے تھا؟۔ اس نے ہنستے ہوئے پنجابی میں کہا کہ اس کو کسی سے خطرہ نہیں البتہ اس سے بہت سے لوگوں کو خطرہ ہے۔
کیس کے بارے میں مقتولہ نورمقدم کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ابھی بہت سے شواہد سامنے آنا باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال کافی حد تک تفتیش مکمل ہوگئی ہے لیکن موبائل فون برآمد ہونا باقی ہے۔ کیس میں کچھ اور لوگ گرفتار ہوئے ہیں جن کے بیانات کی روشنی میں ابھی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔
قتل کی بنیادی وجہ کے بارے میں شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ ملزم کے بیان کے مطابق اس نے مقتولہ کو شادی کی پیش کش کی لیکن اس نے انکار کر دیا جس پر اشتعال میں ملزم نے یہ اقدام کیا۔
اُن کے بقول ملزم کا یہ بیان ابتدائی ہے اور بیشتر ملزمان بعد میں اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں لیکن فرانزک شواہد کی وجہ سے اس قتل کے اصل محرکات کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس میں ’تھراپی ورکس‘ نامی ادارے کا جائزہ بھی لے رہی ہے کیونکہ کل کو اگر ملزم ذہنی بیماری کا جواز پیش کرے تو اس ادارے کا بھی جائزہ لیا جائے۔
وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر، اس کے والدین اور ملازمین کا نام پی آئی این ایل اور بلیک لسٹ میں شامل کر دیا گیاہے جبکہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے لیے اس ہفتے کابینہ اجلاس میں سمری پیش کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
اسلام آباد میں سابق سفارت کار شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو مبینہ طور پر ظاہر جعفر نامی شخص نے تیزدھار آلے سے قتل کر کے سر تن سے جدا کر دیا تھا۔ پولیس نے ملزم کو موقع سے گرفتار کر لیا تھا اور کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔
اس قتل کے بعد سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا پر ملزم ظاہر جعفر کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔