|
کراچی _ پاکستان میں گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے فنانس بل پر پارلیمان کے اندر اور باہر بحث کا سلسلہ جاری ہے جب کہ معاشی تجزیہ کار بجٹ تجاویز کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئے پروگرام کے حصول کے لیے پیشگی اقدامات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 12 ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف رکھا ہے جو رواں مالی سال کے ٹیکس کے ہدف سے لگ بھگ چالیس فی صد زیادہ ہے۔
معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کے مطابق بجٹ میں ٹیکس کے لیے ایک بڑا ہدف رکھنے کا مقصد مالیاتی استحکام حاصل کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتا ہے اور یہ بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی سفارشات کے عین مطابق ہے۔
حکومت آئی ایم ایف سے تقریباً چھ ارب ڈالر کا قرض معاہدہ چاہتی ہے جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو ہر بار ٹیکس نیٹ بڑھانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ رواں سال کا طے شدہ ٹیکس ہدف یعنی نو ہزار 420 ارب روپے میں سے 175 ارب روپے کم جمع ہوپائیں گے۔ ایسے میں کئی ماہرین آئندہ بجٹ میں 40 فی صد زائد ٹیکس اکٹھا کرنے کے ہدف کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
معاشی ماہر سلمان نقوی کہتے ہیں بجٹ دستاویز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے رہنما خطوط پر قریب سے عمل کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ حکومت ٹیکس ریونیو میں 40 فی صد، براہِ راست ٹیکسوں میں 48 فی صد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 52 فی صد اضافہ چاہتی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کا بجٹ: کوئی نئے ٹیکسز پر ناراض تو کسی کو مہنگائی بڑھنے کا خدشہسلمان نقوی نے کہا کہ بجٹ دستاویزات میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات اور موبائل فونز پر 18 فی صد سیلز ٹیکس اور رئیل اسٹیٹ پر مزید کیپٹل گین ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ٹیکس کو بڑھانا، مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے سات اعشاریہ چھ فی صد سے کم کر کے پانچ اعشاریہ نو فی صد تک لانا اور ادائیگیوں کے توازن کو بھی بہتر بنانا دکھائی دیتا ہے۔
فنانشل مارکیٹس کے تجزئیے اور کریڈٹ ریٹنگ پیش کرنے والی کمپنی فچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے کے ہدف پر پارلیمان کے اندر نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ اپنی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
البتہ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے طے کردہ مالی اہداف حاصل کر پائے گی یا نہیں؟ اس بارے میں معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بجٹ کے جزوی نفاذ سے حکومت اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے میں کامیاب تو ہو سکتی ہے لیکن اسے آئی ایم ایف حکام کو مطمئن کرنا پڑے گا۔
تجزیہ کار محمد سہیل کے مطابق حکومت کو آئی ایم ایف کی تجاویز کی روشنی میں سبسڈیز کا خاتمہ، حکومتی خسارے کو کم کرنا اور مالیاتی اہداف کا حصول ممکن بنانا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور معاشی مبصر شبر زیدی جیسے بہت سے تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ ٹیکس کے اہداف غیر حقیقی لگتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ فنانس بل کی باضابطہ منظوری سے پہلے اس میں بہت سی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بجٹ جلد بازی میں تیار کیا گیا ہے اور اس میں کوئی وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ اور یہ دستاویز آئی ایم ایف کی چھتری تلے تیار کی گئی ہے جس سے پاکستان کا معاشی بحران کسی صورت کم ہوتا نظر نہیں آتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک جو پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اس کی برآمدی سیکٹر کو ایسے وقت میں چھیڑا نہیں جاسکتا جب برآمدات جمود کا شکار ہوں۔
'آئی ایم ایف کی رہنمائی میں بجٹ کی تیاری اہم ہے'
برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے سے ان کے خیال میں ملازمتوں اور صنعتوں پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے پاکستان کے لیے بین الاقوامی قرض دینے والے ادارے کے ساتھ معاہدہ جلد ہونا آسان دکھائی نہیں دیتا۔
تجزیہ کار سلمان نقوی کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف کی رہنمائی میں بجٹ کی تیاری بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت سست شرح نمو، بلند افراطِ زر، مالیاتی و بیرونی خساروں کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور استثنیٰ کو ختم کرنے کا مقصد اہم سیاسی چیلنجز کے باوجود آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔
SEE ALSO: فوج کے بجٹ میں 318 ارب روپے کا اضافہ، نصف بجٹ قرض ادائیگی پر خرچ ہوگاوفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس وقت کُل معاشی آمدنی (جی ڈی پی ) کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح محض ساڑھے نو فی صد ہے جو کسی صورت پائیدار نہیں۔ اسے بڑھائے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام شعبے جو اس وقت ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں جلد ہی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں مختلف شعبوں میں گزشتہ سال تین ہزار 900 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی۔ تاہم وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اسکول، جامعات اور اسپتال تو خیراتی پیسوں سے چل سکتے ہیں لیکن ملک صرف ٹیکسز سے چلتے ہیں۔ اس لیے حکومت ٹیکس بڑھانا چاہتی ہے اور اس کے لیے اب تک 32 ہزار ریٹیلرز ٹیکس نیٹ میں لائے جا چکے ہیں۔