|
کراچی -- پاکستان میں حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر ردِعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ بعض حلقے بجٹ پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ بعض حلقوں کے مطابق بجٹ سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال جمع ہونے والے محاصل سے 38 فی صد زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر وصول کرنا زیادتی ہے۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی حقیقی اقدامات نہیں کیے۔
دوسری جانب عام شہریوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لیوی بڑھانے سمیت کئی اشیاء پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے مہنگائی کی نئی لہر آ سکتی ہے۔
'اصلاحات کے بجائے مزید وقت ضائع کر دیا گیا'
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ نئے بجٹ میں اصلاحات کا فقدان اور ٹیکسوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں کو چھوئے بغیر اور قومی فنانس کمیشن (این ایف سی) پر صوبوں کے ساتھ مذاکرات کے بجائے روایتی بجٹ پیش کیا۔
اُن کے بقول اس طرح حکومت نے ملک کی معاشی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کا یہ نادر موقع بھی گنوا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ عام متوسط طبقے کے لیے زندگی کس قدر مشکل ہو چکی ہے۔
'حکومت اپنا کوئی پالیسی فریم ورک پیش نہیں کر سکی'
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے بھی کئی شعبوں میں بھاری ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر تنقید کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ بجٹ دستاویز جلد بازی میں بغیر کسی ہوم ورک کے صرف خلا پُر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بجٹ میں کوئی طویل اور وسط مدتی پروگرام موجود نہیں ہیں۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروباری افراد خطے میں پہلے ہی 10 فی صد سے بھی زائد ٹیکس دیتے ہیں۔ گزشتہ بجٹ منظور کرتے وقت کہا گیا تھا کہ سپر ٹیکس ختم کردیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
غیر تنخواہ دار طبقے کو 45 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹیکس نہ دیں۔ ہمارے جیسے ملک میں ٹیکس کی شرح زیادہ ہونا کرپشن کے راستے مزید آسان کرتا ہے۔
'بجٹ آئی ایم ایف کی ڈیل حاصل کرنے میں معاون رہے گا'
مالیاتی تجزیہ کار محمد سہیل نے بجٹ تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے لیے پیشگی کارروائی کے طور پر کام کرے گا۔ آئی ایم ایف کی مئی میں پاکستانی معیشت پر رپورٹ کی اشاعت ہی پر مبنی دستاویز دکھائی دیتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بجٹ گزشتہ سال کے مالیاتی استحکام کو جاری رکھے گا۔ زیادہ تر اہداف آئی ایم ایف کے رہنما خطوط کے مطابق ہیں جو طویل مدتی فنانسنگ کی سہولت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
برآمدات، توانائی اور دیگر شعبوں میں اگرچہ کوئی بڑی اصلاحات نظر نہیں آئیں۔ لیکن بہت سی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔
محمد سہیل کے مطابق اس بجٹ کے تحت کیے گئے ٹیکس اقدامات کافی متوازن ہیں اور مہنگائی کی توقع کم ہے۔ کیوں کہ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
'ٹیکس نیٹ میں توسیع کیے بغیر معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے'
کئی تجزیہ کار نان ٹیکس نان فائلرز کے لیے زبردستی اقدامات کو بھی حکومت کے قابل ستائش اقدامات قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے لوگوں کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ترغیب ملے گی۔ لیکن پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے خیال میں اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔
ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کاشف ممتاز کا کہنا تھا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالا گیا ہے اور پہلے سے ٹیکس دینے والوں ہی پر بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ اسی طرح تاجروں پر ٹیکس کی شرح بڑھائی گئی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تاجر دوست اسکیم کے تحت محض 30 ہزار تاجروں کو رجسٹرد کیا جا سکا ہے جب کہ ملک بھر میں ان کی تعداد 60 لاکھ سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے بلکہ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معیشت دستاویزی نہیں اور یہ کام حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ اگر ایسا کر لیا جائے تو ٹیکس نیٹ بڑھایا جا سکتا ہے اور اس سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا جاسکتا ہے۔
ان کے خیال میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ نئے ٹیکس دہندگان کو شامل کیے بغیر خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے۔ دنیا بھر کے برعکس اب پاکستان میں ٹیکس سے متعلق تین کیٹیگریز ہو گئی ہیں۔
'بجٹ مایوس کن ہے'
ادھر تاجروں کی جانب سے بھی بجٹ پر ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے تاہم زیادہ تر ٹریڈ باڈیز نے بجٹ تجاویز پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگو نے بجٹ تقریر پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں انڈسٹری کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور ایکسپورٹرز کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
معروف صنعت کار جاوید بلوانی نے حکومت کی جانب سے ٹیکس تجاویز کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تنقید کی ہے۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ میں ٹیکس کی رقوم سے پیسے کیوں دیے جاتے ہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ میں زکوۃ سے حاصل رقوم سے ادائیگی کرے۔
ریئل اسٹیٹ پر مزید ٹیکس کی تجویز
ادھر ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے بھی بجٹ مسترد کرتے ہوئے وفاقی بجٹ میں پراپرٹی ٹیکس، سیلز اور انکم ٹیکس کی بعض شقیں ختم نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
چیئرمین آباد آصف سم سم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ وفاقی بجٹ تعمیراتی صنعت کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ بجٹ میں پیش کیے گئے مجوزہ مالیاتی اقدامات سے تعمیراتی صنعت اور رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر شعبوں پر بھاری مالی بوجھ پڑے گا۔
اُن کے بقول پراپرٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافے سے نہ صرف تعمیراتی لاگت بڑھے گی بلکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری بھی متاثر ہو گی۔
چیئرمین آباد نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے ایسے میں بجٹ میں پیش کردہ مالیاتی اقدامات پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
آصف سم سم نے کہا کہ سیلز ٹیکس میں اضافے سے تعمیراتی سامان مزید مہنگا ہوجائے گا۔ پاکستان میں پہلے ہی ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے۔
تعمیراتی مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے بلڈرز اور ڈیولپرز کے اخراجات بڑھ جائیں گے جو کہ لامحالہ گھر خریدنے والوں کو منتقل کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں اوسط درجے کے شہری کے لیے گھر بنانا ایک نہ پورا ہونے والا خواب ہی بن جائے گا۔
'زیادہ ٹیکس اکھٹا کیے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا'
ادھر وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ اس قدر کم ٹیکس جمع کرنے سے ملک نہیں چل پائے گا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور حکومت کا منصوبہ یہی ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح آئندہ تین برسوں میں 13 فی صد تک پہنچائی جائے جو اس وقت 10 فی صد سے بھی کم ہے۔
وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کا تحفظ ممکن بنایا ہے اور کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد غیر دستاویزی معیشت کو ختم کرنا اور مالیاتی نظام کو ڈیجیٹل کرنا ہے۔ ایف بی آر کی کارکردگی کے بارے میں بات کرنا بھی ضروری ہے۔
فورم