حکومتِ پاکستان دس جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت پینشن میں بھی اضافے کی تجویز ہے۔ یہ بجٹ ایسے موقع پر پیش کیا جا رہا ہے جب حکومت کو ادائیگیوں کے غیر معمولی بوجھ، بھاری مالی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ بنانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ حکومت نے مختلف طبقات کی رائے حاصل کرنے کے لیے منگل کو اسلام آباد میں ایک پری بجٹ بزنس کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس میں ملک کے چوٹی کے تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
تقریباًسات گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں جہاں ملک کو درپیش معاشی مسائل پر بحث کی گئی وہیں تاجروں نے اپنی تجاویز اور آراء بھی حکومت کے سامنے رکھیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان اقبال شیخ بتاتے ہیں کہ انہوں نے حکومت کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کو ترتیب دینے میں تاجروں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے کئی قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان اقبال نے کہا کہ حکومت کو تجارتی خسارے کو منافع میں تبدیل کرنے کے لیے صنعتی ترقی کو اپنانا ہوگااور اس کے ساتھ زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زرعی شعبہ ایک عرصے سے مکمل طور پر نظر انداز رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے جب کہ کئی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
عرفان اقبال شیخ کے مطابق فیڈریشن نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کرے، انڈسٹری کو ٹیکس فری بنایا جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے ان کے خیال میں پاکستان 10 سے 15 ارب ڈالرز تک باآسانی کماسکتا ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی کا مزیدکہنا تھا کہ حوالہ اور ہنڈی کے بجائے لوگوں کو بینکنگ چینل کے ذریعے پیسے بھجوانے کے لیے قائل کرنا ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے کمرشل بینکس کا آپریشن 24 گھنٹے ہونا چاہیے تاکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو کم سے کم وقت میں اپنے پیسے ملک میں منتقل کرنے کی سہولت میسر ہو۔
'بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدی ہدف پورا کرنا ممکن نہیں'
پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت ملکی برآمدات میں 60 فی صد سے زائد کی حصہ دار ہے۔ لیکن ملک میں جاری بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی زد میں ٹیکسائل کا شعبہ بھی آیا ہے جس سے اس صنعت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔
ٹیکسٹائل صنعت سے منسلک معروف تاجر زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ صنعت کاروں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر صنعتوں کی علاقائی مسابقت کو بڑھایا نہیں جاتا تو حکومت کو ہر چند سال بعد کشکول لے کر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور دیگر ممالک کے پاس ہی جانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ملکی صنعتوں کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام اور دیگر ملکوں کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔
SEE ALSO: پاکستان: اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ، 'مہنگائی کی نئی لہر آنا باقی ہے'زبیر موتی والا کے بقول پاکستان میں اس وقت بجلی کی قیمت 16 سینٹ کے قریب ہے اور حکومت نے مزید آٹھ روپے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں بجلی کی قیمت 6 سے 9 سینٹس کے درمیان ہے۔
صنعت کاروں نے شکوہ کیا ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کے باوجود صنعتوں کو دستیاب نہیں ہے اور اگر ٹیکسائل سیکٹر کے لیے گیس کی قیمتیں بڑھائی گئیں برآمدی ہدف پورا نہیں کیا جا سکتا۔
اس سوال پر کہ حکومت تاجروں کی تجاویز کو بجٹ کی تشکیل میں کس قدر اہمیت دے گی؟ زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف تاجروں کے مسائل حل کرنے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں پر دیکھنا یہ ہے کہ وہ تاجروں کی تجاویز پر کس حد تک عمل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب معاشی امور کے ماہر اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو بھیجی گئی تجاویز میں کہا ہے کہ تمام شعبوں سے سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ملکی صنعتیں بیساکھیوں پر کھڑے ہونے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اشفاق تولہ کہتے ہیں ٹیکس اصلاحات ایسے کی جائیں کہ جو ٹیکس پہلے سے دے رہا ہے اس پر بوجھ پڑنے کے بجائے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے۔ ملکی آمدنی میں زراعت کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود ٹیکس جمع کرنے میں انتہائی قلیل حصہ ہے، اسی طرح تاجر حضرات کو بھی ٹیکس دینے پر رضامند کرنا ضروری ہے۔
اشفاق تولہ اس بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں کہ حکومت ان کی جانب سے دی گئی تجاویز پر کان دھرے گی۔
پری بجٹ بزنس کانفرنس سے وزیر اعظم نے کیا کہا؟
وزیراعظم شہباز شریف نے پری بجٹ بزنس کانفرنس سے اپنے خطاب میں 'میثاق معیشت' کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام شراکت دار ایسے فریم ورک کی تشکیل میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں جس سے ملک کو زرعی برآمدات کو بڑھانے میں مدد ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ پالیسیوں میں تسلسل کے لیے میثاقِ معیشت ناگزیر ہے۔ برآمدات پر مبنی صنعت، زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے ایگری انڈسٹریل انویسٹمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کا حصول ہماری ترجیحات ہیں۔
کانفرنس کے دوران وزیرِ اعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ایکسپورٹ صنعتی زونز کے قیام کے لیے سرمایہ کاروں کو مفت اراضی فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم نے شرکا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ملکی ترقی کے لیے تاجروں اور ماہرین کی جانب سے دی گئی 'اچھی تجاویز' پر حکومت عمل کرے گی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ایک سال تین ماہ کی رہ جانے والی حکومتی مدت کے لیے قلیل اور وسط مدتی منصوبے بنانے ہیں، اس لیے میثاقِ معیشت کی دعوت دیتے ہیں تاکہ میثاقِ معیشت کے تحت ایسے اہداف طے کیے جائیں جنہیں تبدیل نہ کیا جا سکے۔
وزیر اعظم نے قومی معاشی کونسل کا اجلاس بھی بدھ کو طلب کیا ہے جس میں تمام وزرائے اعلیٰ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ، وزرات خزانہ، توانائی، پیٹرولیم سمیت دیگر شعبوں کے حکام شریک ہوں گے۔