پاکستان کی وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کا مسودہ منظور کر لیا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی ایک قرار داد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی 'بے جا مداخلت' کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔
کابینہ سے منظور کیے گئے مسودے کے مطابق کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کریں گے۔
کابینہ سے منظوری کے بعد وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر' کا بل منگل کی شب قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ماضی میں ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پارکنگ کے مسائل اور گلی میں گندا پانی کھڑے ہونے پر بھی ماضی میں ازخود نوٹس لیے جاتے رہے ہیں۔
ترمیمی بل ہے کیا؟
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی یہ کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔ آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججز کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ قانون بھی بنایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ بل قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا جب کہ یہ کمیٹی اس بل پر رپورٹ ممکنہ طور پر بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔
سیاسی معاملات میں عدلیہ کی 'بے جا مداخلت' کے خلاف قرارداد منظور
پاکستان کی قومی اسمبلی میں منگل کو اسی معاملے پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ہے کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی 'بے جا مداخلت' کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔
قومی اسمبلی میں یہ قرار داد وفاقی وزیرِاطلاعات مریم اورنگزیب نے پیش کی۔ قرار داد کے مطابق ایوان قرار دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد خودمختار آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
قرار داد میں ہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے اور کمیشن کو اس کی صوابدید کے مطابق سازگار حالات میں الیکشن کا انعقاد کرنے دیا جائے۔
اسمبلی میں منظور ہونے والی اس قرار داد میں یہ کہا گیا ہے کہ ایوان یہ توقع رکھتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔
'مجوزہ ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے'
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے مجوزہ ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مجوزہ ترامیم کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ حق صرف منتخب پارلیمان کے پاس ہے کہ وہ ایک تفصیلی بحث کے بعد کوئی بھی ترمیم کرے۔
قبل ازیں منگل کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ عدلیہ کے اندر سے اُٹھنے والی آوازیں اُمید کی کرن ہیں۔ اب اگر پارلیمنٹ نے قانون سازی نہ کی تو پھر آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ترازو کا تواز ن ہی جنگل کے قانون" کو بدلے گا۔آج ججوں کے نام گلی محلوں کے بچوں کی زبان پر ہیں، اسے ختم کرنا ہو گا۔ اسی صورت میں ہی انصاف کا بول بالا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے کام کرے۔
وزیرِ اعظم نے الیکشن ازخود نوٹس کیس میں دو ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کل کے فیصلے کے بعد قانون سازی نہ کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
SEE ALSO: دو ججز کے فیصلے کے بعد قانون سازی نہ کی تو مؤرخ معاف نہیں کرے گا: شہباز شریفخیال رہے کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا انتخابات کیس کے فیصلے کا پیر کو اختلافی نوٹ سامنے آیا تھا۔
سپریم کورٹ کے دونوں ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کو وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔ یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظرِ ثانی کی جائے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔
اس از خود نوٹس کیس میں نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تاہم بعد ازاں دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے حکومتی جماعتوں کے اعتراض کے بعد کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔
ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار پر بات کی تھی۔
SEE ALSO: ’چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ نظرِ ثانی کا درست وقت ہے‘جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں اس پٹیشن کو مسترد کر دیا تھا جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑ دیا تھا جس کے بعد انہیں بینچ سے الگ کر دیا گیا تھا۔
اس معاملے کے بعد پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اور کئی سماعتوں کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس وقت کے لارجر بینچ میں شامل دو ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ پیر کو سامنے آیا ہے۔
حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کی اطلاعات پر حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت تحریکِ انصاف پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ حکومت اس عمل کے ذریعے سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ ایسے وقت میں عدالتی اصلاحات کی باتیں کرنا جب الیکشن کا کیس زیرِ سماعت ہے، یہ حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔