ایشیائی نژاد، غیر سفید فام اور ایک باعمل ہندو سیاست داں رشی سونک کے برطانیہ کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھارت میں جہاں خوشی کا ماحول ہے وہیں ایک نئی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔
حزب اختلاف کے بعض سیاست دانوں نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ کیا بھارت میں کوئی مسلمان یا عیسائی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہو سکتا ہے؟
سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم نے رشی سونک اور کاملا ہیرس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اور یہاں کی ان سیاسی جماعتوں کو جو کہ اکثریت پسندی کی سیاست کر رہی ہیں، سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے سوال کیا کہ کیا بھارت میں کوئی ’صریح او رکھلا اقلیتی‘ فرد وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
انہوں نے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بی جے پی کسی عیسائی یا مسلمان کو وزیرِ اعظم کے منصب کے لیے قبول کر سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہم ملک میں بڑھتی اکثریت پسندی کی سیاست میں، بی جے پی جس کی پشت پر ہے، یہ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو ہندو، جین، سکھ یا بدھ مت کا پیروکار نہیں ہے، وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
ششی تھرور نے اطالوی نژاد اور عیسائی سیاست داں اور کانگریس پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی کا ذکر کیا جب 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کی قیادت میں ’یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس‘ (یو پی اے) کو کامیابی ملی تھی اور وہ وزیر اعظم بن سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے مخالفت کی وجہ سے خود وزیر اعظم بننے کے بجائے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔
ششی تھرور نے کہا کہ اس وقت ایک سرکردہ سیاست داں نے دھمکی دی تھی کہ اگر سونیا گاندھی وزیر اعظم بنیں تو وہ اپنا سر منڈوا دیں گی۔ خیال رہے کہ سشما سوراج نے جو کہ بعد میں بھارت کی وزیر خارجہ ہوئیں، یہ دھمکی دی تھی۔
بی جے پی نے ششی تھرور کے بیان پر سخت ردِعمل ظاہر کیا۔ پارٹی کے سینئر رہنما روی شنکر پرساد نے سوال کیا کہ کیا ڈاکٹر من موہن سنگھ اقلیتی طبقے سے تعلق نہیں رکھتے؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکھ اور مسلمان ملک کے صدر بھی ہوئے ہیں جب کہ کئی مسلمان ریاستوں کے وزرائے اعلی ہوئے ہیں۔
بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی بھی مثال پیش کی اور کہا کہ ملک کی 81 فی صد ہندو آبادی میں سکھ اور مسلمان اعلیٰ مناصب پر پہنچے ہیں۔
اس پر ششی تھرور کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ یقیناً ایک اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بہت سے ہندو سکھ برادری کو خود سے الگ نہیں مانتے۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک بھارتی نژاد کے برطانیہ کا وزیر اعظم بننے پر ہمیں فخر ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ نے ایک نسلی اقلیتی رکن کو اپنا وزیر اعظم تسلیم کیا ہے۔ لیکن ہم اب بھی ’نیشنل رجسٹر سٹیزن‘ (این آر سی) اور شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) جیسے تفرقہ انگیز اور امتیازی قوانین میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس پر روی شنکر پرساد نے محبوبہ مفتی سے سوال کیا کہ کیا وہ کسی اقلیتی فرد کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول کریں گی?
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اپنی زندگی میں ایک حجاب پوش خاتون کو وزیر اعظم کی حیثیت سے دیکھنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ اس سے قبل بھی وہ اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد اور ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھارت کے مسلمان صدر رہ چکے ہیں۔ جب کہ برکت اللہ خاں راجستھان، عبد الرحمن انتولے مہاراشٹرا اور عبد الغفور بہار کے مسلمان وزیر اعلیٰ ہوئے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ رشی سونک بھارتی نژاد باعمل ہندو ہیں۔ وہ پہلے برطانوی شہری ہیں اس کے بعد کچھ اور۔
سینئر تجزیہ کار جاوید نقوی کا کہنا ہے کہ رشی سونک بحیثیت وزیر اعظم برطانیہ بہت زیادہ ہندوستانیت نہیں دکھائیں گے۔ کیوں کہ اس سے ان کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اُن کے بقول ایک خاص نظریے کو عروج حاصل ہونے کی وجہ سے سیاست میں تنگ نظری آگئی ہے۔ بقول ان کے پہلے اس قسم کی باتیں نہیں ہوتی تھیں کہ کون زیادہ ہندو ہے یا کون زیادہ مسلمان ہے۔
SEE ALSO: برطانیہ کے نومنتخب وزیرِ اعظم رشی سونک نے کابینہ کی تشکیل شروع کردی
سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ کئی مسلم وزرائے اعلیٰ اور کئی اقلیتی صدور ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کسی مسلمان کو اپنا رُکنِ پارلیمنٹ کیوں نہیں بناتی۔
ان کے بقول نریند رمودی کی حکومت میں اقلیتوں کے لیے سیاسی مواقع کم ہو گئے ہیں۔ دوسری پارٹیاں بھی اس ڈر سے کہ ہندو ناراض ہو جائیں گے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی بات نہیں کرتیں۔
بی جے پی کے سیاسی نظریات کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ششی تھرور اور ان دیگر سیاست دانوں کو جو رشی سونک کے حوالے سے بھارت میں اقلیتی فرد کے وزیر اعظم بننے کے سلسلے میں سوال کر رہے ہیں، جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ششی تھرور کا سوال ہی غلط ہے۔
ادھر کانگریس پارٹی نے پی چدمبرم اور ششی تھرور کے بیانات سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ بھارت مذہبی و ثقافتی تنوع کا ملک رہا ہے۔ لیکن گزشتہ آٹھ برس سے کچھ اور دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں ہمیں کسی دوسرے ملک سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میڈیا میں اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ رشی سونک کے دور میں بھارت اور برطانیہ کے رشتے کس نوعیت کے ہوں گے۔ جاوید نقوی کے مطابق آنے والا وقت بتائے گا کہ باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان کئی تنازعات ہیں۔ جیسے کہ ہندوستانیوں کا وہاں زیادہ دنوں تک قیام کرنا۔ اس کے علاوہ آزاد تجارت معاہدہ کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ نریند رمودی اور بورس جانسن نے یہ طے کیا تھا کہ دیوالی کے تہوار تک یہ معاہدہ ہو جائے گا۔ دیوالی 24 اکتوبر کو گزر چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق آزاد تجارت معاہدے کے سلسلے میں غیر یقینی صورت حال ہے۔