رسائی کے لنکس

سیلاب سے متاثرہ لڑکی کو امداد کا جھانسا دے کر زیادتی کرنے والے ملزمان گرفتار : کراچی پولیس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لڑکی کو امداد کا جھانسا دے کر زیادتی کا نشانہ بنانے والے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بدھ کو جن دو ملزمان کو حراست میں لیا گیا، ان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ہوئی۔

فوٹیج میں ایک سفید کار نظر آ رہی ہے جو حکام کے مطابق ملزمان کی تھی اور اسی میں پولیس کے مطابق نو سالہ لڑکی کو پیر کے دن زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایک ملزم کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا جب کہ دوسرے ملزم کو ٹنڈو الہیار سے حراست میں لیا گیا۔ ڈیفنس سے گرفتار ہونے والے ملزم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ آن لائن ٹیکسی چلاتا تھا۔

مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ لڑکی سے زیادتی کے واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی برآمد ہو گئی ہے جو ڈیفنس سے حراست میں لیے گئے ملزم کے استعمال میں تھی۔ملزم کے طبی معانئے کے بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے بھی ملزمان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ملزمان نے لڑکی کو کراچی کے علاقے کلفٹن سے یہ کہہ کر گاڑی میں سوار کرایا کہ وہ سیلاب زدہ افراد کو مدد فراہم کر رہا ہے۔

ملزمان کے حوالے سے پولیس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں ملزمان ایک ساتھ رہتے تھے۔انہوں نے کلفٹن بلاک چار سے بچی کو راشن دینے کا جھانسا دے کر گاڑی میں سوار کرایا تھا۔

بعد ازاں لڑکی کو ڈیفنس میں دو دریا کے علاقے لے گئے جہاں گاڑی میں مبینہ طور پر ملزمان نے اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ملزمان نے لڑکی کو دوبارہ کلفٹن بلاک چار میں چھوڑا۔

ایک ملزم واردات کے بعد ٹنڈوالہیار فرار ہو گیا تھا البتہ پولیس نے اس کی شناخت کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔

کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) جاوید عالم اوڈھو نے اس واردات کے حوالے سے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو میں کہا کہ کراچی کی پولیس نے ہائی پروفائل کیسز میں خصوصی کیمروں اور دیگر شواہد کی مدد سے کیسز حل کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔

لڑکی سے زیادہ کا واقعہ 23 اکتوبر کی دوپہر کو پیش آیا تھا جب کہ پولیس کو اسی روز شام میں مطلع کیا گیا تھا۔جس کے بعد پولیس نے شواہد جمع کرنا شروع کیے تو اس گاڑی کی تلاش بھی اس میں شامل تھی جس میں واردات ہوئی تھی۔

پولیس نے شواہد کی مدد سے دو ملزمان کو شناخت کیا اور مختصر عرصے میں دونوں کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ ملزمان کی گاڑی بھی برآمد کی جا چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کو حل کرنے کے لیے جہاں ٹیکنالوجی استعمال کی گئی وہیں عوام نے بھی پولیس کی مدد کی۔

واضح رہے کہ سندھ میں رواں برس آنے والے سیلاب کے بعد کئی خاندان کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں میں سے بعض کلفٹن میں بھی مقیم ہیں۔ لڑکی کے دیگر بھی پانچ بہن بھائی ہیں۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جس لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کی گئی ہے اس کا خاندان بھی کلفٹن میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار قریب پراؤ ڈالے ہوئے ہے تاکہ مزار سے باآسانی کھانا حاصل کیا جا سکے۔

انگریزی اخبار "ڈان" کی رپورٹ کے مطابق پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید نے بتایا تھا کہ لڑکی کو جب اتوار کی شام جناح اسپتال لایا گیا تھا اس وقت اس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ وہاں طبی معائنے میں اس سے زیادتی کی تصدیق ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کے کپڑوں سے نمونے حاصل کر لیے تھے تاکہ ڈی این اے کے ذریعے ملزمان کی نشان دہی ہو سکے۔

پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ لڑکی کی والدہ کی مدعیت میں بوٹ بیسن تھانے میں درج کیا تھا جس میں زیادتی کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔

لڑکی کی والدہ نے پولیس کو بیان میں بتایا تھا کہ وہ کراچی میں شاہ رسول کالونی میں اپنے بچوں کے ہمراہ فٹ پاتھ پر رہتی ہیں اور بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر لاتی ہیں۔

واقعے پر سوشل میڈیا پر بھی سخت ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعہ کا نوٹس لیا تھا اور پولیس کو فوری کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG