کیا نواز شریف کی پاکستان واپسی سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہو سکتا ہے؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف (فائل فوٹو)

پاکستان کے آئے روز بدلتے سیاسی منظر نامے میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ بہت جلد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بھی وطن واپس آکر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالنے والے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل سے نمٹنا مسلم لیگ (ن) کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔

نواز شریف نے چند روز قبل لندن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ 2017 کے بعد پاکستان کو شخصیات نے اپنی انا کے گرد گھمایا اور نقصان پہنچایا۔ نواز شریف سے جب یہ سوال ہوا کہ کیا اُن کا اشارہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی جانب ہے؟ تو نواز شریف کا کہنا تھا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کون سے لوگ طاقت میں تھے۔

دوسری جانب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دو صوبوں میں الیکشن کا بگل بھی بجنے والا ہے اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم جو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں، وطن واپسی پر کون سا بیانیہ اپنائیں گے؟

تجزیہ کار اور کالم نویس نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس وقت بیانیہ اہم نہیں ہے بلکہ کارکردگی کی اہمیت ہے اور عوام کے نزدیک سب سے اہم یہ ہو گا کہ کون انہیں ریلیف دیتا ہے۔

'ساڑھے تین برس تک لندن میں قیام نواز شریف کی سیاسی غلطی'

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ نواز شریف ساڑھے تین برس سے لندن میں مقیم ہیں اور یہ اُن کی بڑی سیاسی غلطی ہے۔ لہذٰا وطن واپس کر انہیں پہلے اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا یہ کہنا کہ اُن کی جماعت ملک کے حالات ٹھیک کر دے گی، ایک سیاسی بیان تو ہو سکتا ہے۔ لیکن انہیں وطن واپس کر یہ ثابت بھی کرنا ہو گا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بظاہر نواز شریف کے پاس ملکی معیشت کو درست کرنے کا ٹھوس منصوبہ موجود نہیں ہے۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت سیاسی میدان میں ہیں، لہذٰا نواز شریف کو بھی لندن میں بیٹھ کر سیاسی بیان دینے کے بجائے ملک میں سیاسی میدان میں آ کر عمران خان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

آئندہ انتخابات میں مسلم (ن) کا کیا بیانیہ ہو سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی نے 2017 میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے پر 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ لگایا تھا۔ مگر اب گزشتہ کئی ماہ سے مسلم لیگ (ن) کا یہ بیانیہ پسِ پشت چلا گیا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے چیلنجز، پی ٹی آئی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی حکومتی جماعت الیکشن میں جاتی ہے تو اس سے زیادہ اپوزیشن میں موجود جماعت کو الیکشن میں فائدہ ہوتا ہے۔

مظہر عباس کے بقول عمران خان کو ہٹائے جانے کے بعد شہباز شریف کی حکومت کے دور میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ لہذٰا الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ گو کہ مسلم لیگ (ن) اس معاشی تباہی کا ذمے دار تحریکِ انصاف کی حکومت کو ٹھہراتی ہے، لیکن یہ بیانیہ کس حد تک ووٹرز کو متاثر کر سکے گا، اس کا فیصلہ تو الیکشن میں ہی ہو گا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت جانے کے فوری بعد الیکشن کرا دیے جاتے تو مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوتا اور معاشی صورتِ حال کی ذمے داری عمران خان حکومت پر ہی عائد ہوتی۔ لیکن اب 10 ماہ سے حکومت میں رہنے کے بعد عوام تو یہی سمجھیں گے کہ مسلم لیگ (ن) اُن کی معاشی مشکلات کی ذمے دار ہے۔

اسٹیبلشمٹ مخالف بیانیہ مقبول کیوں ہوتا ہے؟

ملک کے سیاسی حلقوں میں بات ہو رہی ہے کہ نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت عدلیہ اور فوج کے سابق سراہوں پر تنقید کر سکتے ہیں۔

نصرت جاوید کی رائے میں نواز شریف ایسا کر تو سکتے ہیں۔ سابق فوجی قیادت کانام لے کر انتخابی مہم کے دوران تنقید تو کر سکتے ہیں لیکن عوام کی جانب سے سوال سامنے آئے گا کہ وہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حالیہ کارکردگی پر بات کریں۔ لوگ پوچھیں گے یہ مہنگائی کیوں ہوئی ہے؟ ملک میں بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھی ہیں؟ اِن باتوں کے جواب دیے جائیں۔

مظہر عباس کی رائے میں اگر نواز شریف اپنی انتخابی مہم میں فوج کی سابقہ قیادت پر تنقید کریں گے تو یہی تنقید عمران خان بھی کرتے ہیں جس سے یہ تاثر جائے گا کہ نواز شریف عمران خان کے بیانیے کے ساتھ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنی گفتگو میں اشارہ تو یہ دیا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت نواز شریف اور عمران خان دونوں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف ہیں۔ لیکن وہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور پاکستانی عوام کو اب صرف یہ غرض ہے کہ مہنگائی کون کم کرتا ہے۔


مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ ہوئی اور ساتھ ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس کا لامحالہ اثر حکمراں اتحاد پر پڑے گا اور سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کا ہی ہو گا۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ نواز شریف کو معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے ساتھ وطن واپس آنا ہو گا، ورنہ مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات ہوں گی۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف علاج کی غرض سے نومبر 2019 میں لندن گئے تھے۔