کیا روس سے تیل کی خریداری پاکستان کے لیے قابلِ عمل ہے؟

پاکستان کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کی سربراہی میں ایک اعلی وفد ماسکو کے سرکاری دورے پر ہے جہاں وہ روسی حکام سے رعایتی قیمت پر خام تیل کی درآمد کے امکانات پر بات چیت کر رہاہے۔

اس دورے کے دوران ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے دونوں ملکوں کی حکومت کی جانب سے کوئی تفصیلات تاحال جاری نہیں کی گئی ہیں۔ تاہم توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر پاکستان کی حکومت نے روس سے سستا خام تیل خریدنے کی خواہش کا اظہار کررکھا تھا۔

اس حوالے سے رواں ماہ کے آغاز میں مصدق ملک نے بتایا تھا کہ پاکستان نے روس کو اپنی توانائی ضروریات کے حوالے سے خط لکھا ہے اور ہم گیس اور تیل خریدنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب جنوبی ایشیائی ممالک موسمِ سرما کے آتے ہی گھریلو گیس کی سپلائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب توانائی کی مد میں ادائیگیوں کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانا بھی ایک چیلنج ہے۔

واضح رہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد روسی تیل اور گیس پر انحصار ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے تاکہ روس کی آمدنی کو نقصان پہنچایا جا سکے تاہم بھارت نے اس صورتِ حال میں روس سے اپنے تیل کی درآمد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔


'بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں'

پاکستان کے حکومتی وزرا یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں سستا تیل نہیں خرید سکتا۔

یاد رہے کہ حال ہی میں پاکستان کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے روس سے گندم کی خریداری کی منظوری دی تھی۔

وزارتِ پیٹرولیم کے ذرائع کے مطابق مصدق ملک کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے تیل فراہمی کی مقدار، قیمت، ادائیگیوں کے طریقہ کار، روٹ اور شپمنٹ لاگت وغیرہ پر بات چیت کی۔

اس کے علاوہ روس کے ساتھ نارتھ ساؤتھ پائپ لائن (پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن) پر کام جلد شروع کرنے سے متعلق بھی بات کی گئی جو کہ کراچی سے لاہور تک تعمیر کی جانی ہے۔

وزیر مملکت کی سربراہی میں روس جانے والے اس حکومتی وفد میں سیکریٹری پیٹرولیم محمد محمود اور پیٹرولیم ڈویژن کے دیگر متعلقہ حکام بھی شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

یوکرین جنگ: کون سے ممالک اب بھی روس سے تیل خرید رہے ہیں؟

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ وزیرِ مملکت پیٹرولیم مصدق ملک کی قیادت میں وفد تیل کے معاہدے پر بات چیت کے لیے روس جارہا ہے۔

اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی تھی کہ یہ دورہ کامیاب ہو گا اور حکومت پاکستان جلد ہی روس سے سستے داموں تیل اور گیس حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیوں کہ اسپاٹ قیمتیں اس کی حد سے باہر ہیں اور طویل مدتی سودوں کے تحت ترسیل بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔


'روس سستا تیل دے تو ہی فائدہ ہے'

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد کا روس کا دورہ اقتصادی تعاون سے زیادہ سفارتی نوعیت کا لگتا ہے اور اس کی کامیابی کے نتیجے میں پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ماہر توانائی عمران الحق کہتے ہیں کہ پاکستان کو خام اور قابلِ استعمال دونوں قسم کے تیل اور گیس کی ضرورت ہے جو کہ روس سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ روس ہمیں کس قدر رعایت پر تیل کی پیش کش کرتا ہے۔

اُن کے بقول روس سے مارکیٹ ریٹ سے سستا تیل ملے تب ہی فائدہ ہوگا کیوں کہ وہاں سے ترسیل میں خاصی لاگت آئے گی بصورت دیگر پاکستان خلیجی ممالک کو چھوڑ کر اتنی دور سے تیل کی خریداری کیوں کرے گا۔

عمران الحق کہتے ہیں کہ عالمی منڈی سے خریداری کے بجائے پاکستان اور روس کے درمیان حکومتی سطح پر معاہدے سے کچھ رعایت اور مؤخر ادائیگی جیسی بہت سی آسانیاں مل سکتی ہیں۔

پاکستان میں پہلے ایل این جی ٹرمینل اور قطر کے ساتھ ہونے والے ایل این جی معاہدے کو دیکھنے والے سابق اعلی حکومتی عہدے دار نے کہا کہ روس سے تیل و گیس کے حصول اور کراچی سے لاہور گیس پائپ لائن کی تعمیر پر بھی بات ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ روس بھارت کو جس قسم کا تیل سستا مہیا کرتا ہے وہ پاکستان میں موجود ریفائنری کے ذریعے قابل استعمال نہیں بنایا جاسکتا اس لیے اہم بات یہ ہے کہ روس سے وہ تیل حاصل ہو جو پاکستان میں موجود ریفائنریز کے ذریعے قابل استعمال بنایا جاسکے۔

وہ کہتے ہیں کہ روس کے ساتھ توانائی کے حصول کے لیے طویل مدتی معاہدہ پاکستان کے مفاد میں رہے گا کیوں کہ ماضی میں طویل مدتی معاہدے نہ ہونے کے باعث پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس حکومت سے حکومت کی سطح پر اگر قیمت میں رعایت دے تو بہت فائدہ ہو گا لیکن عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے باعث اس کے امکانات کم ہیں۔

سابق حکومتی عہدیدار نے کہا کہ ایل این جی کے لیے ہمیں جہاز سے ہی ترسیل کرنا ہوگی کیوں کہ روس اور پاکستان کے درمیان کوئی گیس پائپ لائن موجود نہیں، جو کہ عالمی منڈی میں موجودہ قیمت اور سمندری فاصلہ زیادہ ہونے کی بنا پر پاکستان کو زیادہ سستا نہیں مل سکے گی۔

کراچی سے لاہور گیس پائپ لائن کی تعمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ پائپ لائن پچھلے پانچ برس سے زیرِبحث ہے اور اگر اس پر اتفاق بھی کرلیا جائے تو بھی اس کی تعمیر کے آغاز میں دو سال تک لگ جائیں گے۔

کیا امریکہ روس سے تیل خریدنے پر اعتراض کرسکتا ہے؟

امریکہ اور یورپی ممالک روس سے تیل اور گیس کی خریداری پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تاکہ اسےمالی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔

اس بات کو لے کر ان خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کی جانب سے روس سے تیل و گیس کی خریداری پر اعتراض تو نہیں کرے گا۔

پاکستانی وفد کے دورۂ روس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نےکہا کہ پاکستان کی تیل کی ضروریات کو سمجھ سکتے ہیں دیگر حکومتوں پر بھی سستا تیل خریدنے کے لیے دباؤ ہے۔

امریکی محکمہ خا رجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے روس پر تیل برآمد کرنے کے لیے اب تک پابندیاں نہیں لگائیں، اتحادیوں کے ساتھ مل کر مہنگے تیل کے عالمی منڈی پر اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سابق حکومتی عہدیدار نے کہا کہ امریکہ اعلانیہ طور پر پاکستان کی روس سے تیل کے حصول کی مخالفت نہیں کرے گا لیکن اس اقدام پر وہ خوش بھی نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی وفد کا دورہ روس توانائی کے حصول سے زیادہ سیاسی مقاصد کے لیے دکھائی دیتا ہے کیوں کہ تحریک انصاف یہ تواتر سے کہتی آرہی ہے کہ ان کی حکومت روس سے سستا تیل حاصل کرنے کے معاہدے کے قریب تھی کہ ان کی حکومت کا عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ کردیا گیا۔

عمران الحق سمجھتے ہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ کےبیان کے بعد پاکستان کے روس سے تیل و گیس کی خریداری پر کوئی پابندی یا رکاوٹ نہیں ہو گی۔

پاکستان اپنی ضرورت کا 85 فی صد تیل درآمد کرتا ہے جس میں خام تیل اور قابل استعمال تیل دونوں شامل ہیں۔