وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے اور اُن کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیرِاعلٰی نامزد کرنے کے بعد سیاسی رابطوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ لیکن سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ پرویز الہٰی وفاق میں عمران خان کی حکومت بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے بقول اگر وفاق میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پنجاب میں چوہدری پرویز الہٰی کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا بہت مشکل ہو گا۔
ادھر ترین گروپ اور علیم خان گروپ کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی نے اُن سے رابطہ کیا ہے لیکن اُن کی حمایت کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ابھی گروپ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں پرویز الٰہی کا کڑا امتحان ہے جس میں اُن کی کامیابی کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ موجودہ صورتِ حال میں کوئی رُکن اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے کہنے پر عمران خان کو ووٹ دے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جوڑ توڑ کی سیاست تب ہوتی ہے جب اُس کا ماحول ہو اور اس وقت حالات عمران خان کے حق میں نہیں ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پرویز الٰہی نے عمران خان کا ساتھ دے کر جلد بازی کی حالاں کہ وزارتِ اعلٰی کا عہدہ اُنہیں حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی دے رہی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اپنے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے جس کا مطلب ہے کہ پرویزالٰہی کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کو یہ اُمید ہے کہ جس طرح اُنہیں بطور اسپیکر اضافی ووٹ ملے تھے اب بھی وہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب میں قائدِ ایوان سردار عثمان بزدار کو 186 ووٹ ملے تھے، لیکن چوہدری پرویز الہٰی نے اسپیکر کے انتخاب کے دوران 201 ووٹ حاصل کیے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ چوہدری پرویز الہٰی کے پنجاب میں سیاسی تعلقات ہی تھے جس کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کے بعض اراکین نے بھی اُنہیں ووٹ دیے۔
احمد ولید کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر حکومت قومی اسمبلی میں نمبر گیم پوری کر سکے گی، خاص طور پر جب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال رہی ہے۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ عمران خان کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں۔ اُن کے پاس مطلوبہ تعداد کم ہے جو اراکین ناراض ہو کر چلے گئے اُن میں سے ماسوائے ایک کے کسی نے واپسی کی یقین دہانی نہیں کرائی۔
عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
احمد ولید کی رائے میں "عمران خان نے پرویز الٰہی کا انتخاب اِس لیے کیا ہے کہ اُنہیں پتا چل گیا ہے کہ بزدار حکومت کو تو رُخصت کرنا ہی ہے کیوں نہ پرویز الٰہی کو نامزد کر کے اُنہیں بھی خوش کر دیا جائے۔ آگے اُن کی قسمت۔'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ 27 مارچ کے جلسے میں اگر عمران خان مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی قیادت کو قائل کر کے جلسے میں لے آتے تو یہ اُن کا سرپرائز ہو سکتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
'اچھا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپے معاملات خود طے کر رہی ہیں'
افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں سیاست دان اپنے معاملات خود طے کر رہے ہیں جو خوش آئند ہے۔
اُن کے بقول اس وقت کسی کو بھی 'خلائی مخلوق' یا کسی بھی ٹیلیفون کال کا انتظار نہیں۔
افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اُنہیں یہ ایک بہتری نظر آ رہی ہے۔ یہ بہتری بھی عمران خان کے رویے کی وجہ سے آ رہی ہے۔ عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ اُن پر پورا نہیں اُتر پائے۔
احمد ولید کے بقول کچھ عرصہ پہلے تک میڈیا پر عمران خان حکومت کے خلاف تبصروں اور تجزیوں کی مقتدر حلقوں کی جانب سے حوصلہ شکنی کی جاتی تھی، لیکن حالیہ عرصے میں میڈیا پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پرویز الہٰی کو کتنے اراکینِ اسمبلی کی حمایت درکار ہے؟
پنجاب اسمبلی میں ارکان کی کل تعداد 371 ہے۔ کسی بھی رکن کو قائدِ ایوان بننے کے لیے 371 میں سے 186ووٹوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، پی ایم ایل (ن) کے 165، پی ایم ایل( ق) کے 10، پیپلزپارٹی کے سات، پانچ آزاد ارکان جن میں سے ایک رکن جگنو محسن( ن) لیگ میں شامل ہو چکی ہیں جب کہ ایک رکن راہِ حق پارٹی کا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ سیاسی صورتِ حال میں حکمران حماعت کے ناراض ارکان جن میں ترین گروپ اور علیم خان گروپ کے لوگ شامل ہیں، پرویز الٰہی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔