عدالتِ عالیہ لاہور کی جانب سے الیکشن کمیشن کے بیوروکریسی سے ریٹرننگ افسران لینے کے نوٹی فکیشن کو معطل کیے جانے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث جاری ہے کہ کیا عدالتی فیصلے سے آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان بھی روک دیا ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بیورو کریسی کو بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز)، ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز (اے آر اوز) تعیناتی کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
لارجر بینچ کی سربراہی جسٹس علی باقر نجفی کریں گے۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جواد حسن، جسٹس سلطان تنویر، جسٹس شہرام سرور چوہدری اور جسٹس سرفراز ڈوگر شامل ہیں۔
بینچ 18 دسمبر کو تحریکِ انصاف کی درخواست پر سماعت کرے گا۔
اس سے قبل جسٹس علی باقر نجفی نے تحریک انصاف کی درخواست پر انتخابات میں بیوروکریسی کو بطور ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز تعیناتی کے الیکشن کمیشن کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا تھا۔
SEE ALSO: الیکشن 2024؛ ’پی ٹی آئی کا سیاسی بیانیہ بن چکا، مسئلہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کا ہے‘بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عدالتی فیصلے سے انتخابات میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جب کہ بعض مبصرین کی رائے میں عدالت کو انتخابی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔
آئینی و قانونی ماہر اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ آٹھ فروری بڑی مشکل سے آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی آئینی اعتبار سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات تاخیر کا شکار ہیں اور یہ انتخابات اپنے وقت پر نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے بارے میں آئین واضح ہے کہ 90 دن میں انتخابات ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ جب یہ معاملہ وہاں گیا تو سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی باہمی رضا مندی سے ایک حکم جاری ہوا اور آٹھ فروری 2024 کی تاریخ مقرر کردی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 14 دسمبر کو الیکشن کا شیڈول متوقع تھا۔ ایسے موقع پر عدالتِ عالیہ لاہور کا حکم آنا ان کے نزدیک درست نہیں ہے۔
ان کے بقول یہ انتخابات میں تاخیر کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عدالت میں یہ رٹ کسی سیاسی جماعت نے فائل کی جب کہ وہی سیاسی جماعت الیکشن کی رَٹ بھی لگائے ہوئے ہے۔
'عدالتی مداخلت پر قدغن ہونی چاہیے'
پاکستان میں پارلیمنٹ، انتخابی نظام کی مضبوطی اور مقامی حکومتوں کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نمائندے مدثر رضوی سمجھتے ہیں کہ انتخابات اور اس طرح کے دیگر معاملات میں عدالتیں جو مداخلت کرتی ہیں ان پر آئینی اور قانونی قدغن ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 220 بہت واضح ہے کہ انتظامیہ کو انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن کے زیرِ اثر کام کرنا ہے اور وہ کر بھی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اس شق کے مطابق نہیں ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے بعد ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے تقرر کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے ساتھ ان الیکشن افسران کی تربیت بھی معطل ہوگئی ہے۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ عدالتی فیصلے سے انتخابات میں معمولی تاخیر ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آٹھ فروری کی تاریخ کو انتخابات کے طور پر سامنے رکھ الیکشن کمیشن کو ایک سے دو دنوں میں انتخابی شیڈول جاری کرنا تھا۔ تاہم عدالتی فیصلے سے اس عمل میں تعطل آیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اب ایسا اس وقت ممکن ہو سکے گا جب عدالتِ عالیہ لاہور کا لارجر بینچ آر اوز اور ڈی آر اوز کے تقرر کے معاملے کا فیصلے کرے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کو پاکستان بھر میں عام انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے۔ آئین کے تحت الیکشن شیڈول کا اعلان 54 دن پہلے ہونا ہے۔ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں انتخابی عملے خصوصاً ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تربیت کا عمل روک دیا ہے۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے ڈپٹی کمشنرز کے بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز)، ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران (اے آر اوز) کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق یہ ٹریننگ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق روکی گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے پیشِ نظر الیکشن کمیشن نے پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے الیکشن کمشنرز کو اس بارے میں مراسلہ بھی جاری کردیا ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے عدلیہ اور انتظامیہ سے ریٹرننگ افسران اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران لے سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ (بیوروکریسی) سے ریٹرننگ افسران اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔
فافن کے نمائندے مدثر رضوی کی رائے میں انتخابات کرانے سے متعلق جو تعیناتیاں ایگزیکٹو حکام (انتظامیہ) کی بیوروکریسی سے ہوئی تھیں یہ قانون میں واضح ہے۔
ان کے بقول جوڈیشل افسران کی تعیناتی الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا۔ قانون کے مطابق ایسا کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو تمام چیف جسٹس سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ الیکشن کمیشن خود اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ جاتا ہے یا عدالت خود اس معاملے میں آتی ہے۔
SEE ALSO: امن و امان کی صورتِ حال کے باعث انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے: نگراں حکومتسابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد کہتے ہیں کہ آخر کسی نہ کسی نے تو انتخابات کرانے ہیں۔
ان کے بقول اگر الیشکن کمیشن عدلیہ سے نفری مانگتا ہے تو عدلیہ اپنے ارکان دینے کے لیے تیار نہیں نظر آتی۔ افواجِ پاکستان بھی اگر اس سے منع کردیں اور بیوروکریسی پر اعتراضات ہوں تو اس اعتبار سے تو آٹھ فروری کے انتخابات کا کیا ہوگا؟
یاسین آزاد کہتے ہیں پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو۔ انتخابات ہر حال میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن کے عملے اور محکمۂ قانون کے لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات بھی کی ہے۔
ان کے بقول عدالتِ عالیہ کو ایسا فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور ان کے معاملات میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا اور انتخابی شیڈول دینا شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کو فیصلہ دینے سے قبل یہ دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ مانگا جا رہا ہے اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ عدالت کو یہ دیکھا چاہیے کہ حکم امتناع جاری کرنے سے نقصان کس کا ہے۔ نقصان تو پورے پاکستان کا ہے۔ ملک میں جمہوریت کو چلنے دیا جانا چاہیے۔
یاسین آزاد کی رائے میں یہ اتنا اہم قانونی نقطہ نہیں تھا جس کے لیے لارجر بینچ بنانے کی ضرورت پیش آئے۔ ان کے خیال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ حرکت میں آئے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھ سکتی ہے کہ بیوروکریسی کے افسران کے تحت انتخابات کیوں کرانا چاہتے ہیں۔
مدثر رضوی کے خیال میں عدالتی فیصلے کے فوری بعد اگر نئے ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کی تعیناتی نہیں ہوتی اور قانونی بحث عدالتوں میں جاری رہتی ہے تو انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے کیوں کہ ان کے بقول الیکشن کمیشن عدالتی فیصلے ماننے کا پابند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ واپس ہوجاتا ہے یا سپریم کورٹ خود سے کوئی فیصلہ دے دیتی ہے تو انتخابی عملے کی تربیت کے بعد انتخابی شیڈول کا اعلان ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول اگر ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز عدلیہ سے ہی لینے ہیں تو اس سلسلے میں مشاورت ہو گی۔ افسران کی فہرستیں بنیں گی اور اس کے بعد معاملہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے تعطل کا شکار ہوا تھا جس میں ایک دن یا کئی دن لگ سکتے ہیں۔