سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی سفارت خانے کے آفیشلز کو بھی بطور گواہ بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی غیر ملکی سفارت خانے کے نمائندے کو عدالت میں طلب کیا جا سکے؟
ماہرینِ قانون اور سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی سفارت کار کو کسی بھی صورت فوج داری کیس میں گواہی کے لیے طلب نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین کے مطابق اگر کوئی ملک رضاکارانہ طور پر کسی کیس میں اپنے سفارت کار کو عدالت میں پیش ہونے کا کہے تو ممکن ہے۔ لیکن اس کے بغیر سفارتی استثناٰ کے باعث انہیں عدالت میں نہیں بلایا جا سکتا۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کی استغاثہ یا دفاع کے لیے گواہی کی ضرورت ہو تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
'سفارت کار کو قتل کے مقدمے میں بھی عدالت میں نہیں بلایا جا سکتا'
انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر رہنے والے سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی سفارت کار کو کسی کریمنل کیس میں طلب نہیں کیا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ سفارتی استثناٰ کے مطابق اگر کوئی سفارت کار کسی قتل میں بھی ملوث ہو تو بھی اسے نہ توگرفتار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے عدالت بلایا جا سکتا ہے۔
عاقل ندیم کہتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کے پاس صرف انہیں ملک سے نکالنے کا اختیار ہوتا ہے، ماضی میں امریکہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کار کے حادثے میں کسی سفارت کار کے ملوث ہونے پر امریکہ نے اس ملک پر دباؤ ڈالا تھا کہ اس سفارت کار کا سفارتی استثناٰ ختم کیا جائے۔ لیکن اس کیس میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میرے اندازے کے مطابق جج بھی ایسی کسی درخواست کو نہیں دیکھیں گے کیوں کہ جج یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس کی گواہی ضروری ہے۔
اُن کے بقول یہ کیس سائفر کا ہے جس میں آفیشل سیکرٹ دستاویز کو افشا کیا گیا ہے، سائفر کے ذریعے کوئی سازش ہوئی یا نہیں، یہ بعد کا سوال ہے، عدالت کے سامنے اس وقت صرف یہ سوال ہے کہ آیا یہ سرکاری دستاویز سیاسی فائدے کے لیے افشا کی گئی یا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عاقل ندیم کے بقول ویانا کنونشن پر تمام ممالک کے دستخط موجود ہیں اور اس کی موجودگی میں کسی بھی سفارت کار کو عدالت میں بلانا ممکن نہیں ہے۔
اُن کے بقول اس میں صرف ایک بات ہو سکتی ہے کہ اگر امریکی حکومت اپنے سفارت کار کو عدالت میں جا کر بیان دینے کو کہے تو ممکن ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کسی سفارت کار کو عدالت میں یا محض بیان کے لیے بلانا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
'کسی کو زبردستی گواہی کے لیے نہیں بلایا جا سکتا'
سینئر وکیل عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں کہ ایک تو یہ کسی سفارت کار کے سفارتی استثناٰ کا معاملہ ہے، دوسرا کریمنل ٹرائل میں پراسیکیوشن یا دفاع کسی کو جبری طور پر گواہ نہیں بنا سکتے۔ پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔
اُن کے بقول عدالت صرف کسی ایکسپرٹ کو گواہی کے لیے بلا سکتی ہے جیسے کوئی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ ہو تو عدالت اسے عدالت میں طلب کر کے پوچھ سکتی کہ یہ تحریر کسی ملزم کی تحریر سے مل رہی ہے یا نہیں۔
عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ دفاع کے وکیل اپنے گواہ بلا سکتے ہیں لیکن وہ کسی شخص کی طرف اشارہ کر کے نہیں کہہ سکتے کہ اسے گواہی کے لیے طلب کیا جائے۔ پولیس بھی ایسا نہیں کر سکتی کہ وہ کسی شخص کو گواہی کے لیے زبردستی بلائے۔
اُن کے بقول پولیس کے پاس اختیار ہے کہ کسی شخص کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے اسے کہہ سکتی ہے کہ آپ اس کیس سے متعلقہ ہیں۔ لہذا آپ اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔ اس معاملے میں اگر پولیس کو لگے کہ بیان ریکارڈ کروانے کے دوران اس شخص نے تعاون نہیں کیا یا پولیس کو گمراہ کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
عمر گیلانی کے مطابق اگر کوئی شخص بیان دینے کے بعد عدالت میں گواہی دینے پر تیار نہ ہو تو اس کے خلاف حقائق چھپانے کا الزام عائد کر کے اسے جیل تو بھجوایا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
اُن کے بقول اس کیس میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی سفارت خانے کے نمائندے کو بلانا عدالت کے لیے بھی ممکن نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول یہ کیس ایک سرکاری دستاویز کے غیر قانونی طور پر افشا کرنے کا ہے۔ اس میں کسی سازش کا معاملہ زیرِ بحث نہیں ہے۔
عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل وکیل نعیم پنجوتھا کہتے ہیں کہ اس کیس میں اصل ذمے دار تو امریکہ اور جنرل باجوہ ہیں جس شخص پر حملہ کیا گیا اس کے خلاف کیس چل رہا ہے اور جن لوگوں نے یہ سب کیا ہے وہ اس سارے معاملے سے دور بیٹھے ہیں۔
لیکن جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کس قانون اور شق کے مطابق جنرل باجوہ اور امریکی سفارتی آفیشلز کی گواہی کا کہہ رہے ہیں؟ تو نعیم پنجوتھا نے کہا کہ وہ اس بارے میں چیک کرنے کے بعد بتائیں گے لیکن اس خبر کی اشاعت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ نے اس بارے میں امریکی سفارت خانے کا مؤقف جاننے کے لیے سفارت خانے کے ترجمان کو سوال بھجوائے ۔ لیکن ان کی طرف سے بھی اس بارے میں کوئی جواب فی الحال نہیں دیا گیا۔
امریکہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے الزامات کی متعدد بار تردید کر چکا ہے۔ امریکی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ملک کے اندرونی سیاسی معاملات سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔
وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے سائفر کیس میں جو چالان عدالت میں جمع کروایا گیا ہے اس میں عمران خان پر الزام ہے کہ اُنہوں نے امریکہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔
سائفر کیس کیا ہے؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔
اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد 10 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے۔
لیکن بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کی بنیاد پر اس کیس کی تمام کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سماعت جاری ہے۔