آب وہوا کی تبدیلیوں پر میکسیکو کے شہر کین کون میں دوہفتوں تک جاری رہنے والی عالمی کانفرنس چند مثبت اشاروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اس کانفرنس میں 190 سے زیادہ ممالک کے وفود شریک ہوئے اور بڑھتی ہوئی عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ اس کانفرنس میں ایک نئے گلوبل فنڈ کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ہے جسے جنگلات کی کٹائی روکنے اور آب وہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہناہے کہ یہ کانگرنس پچھلے سال کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس کی نسبت کامیاب رہی ہے اور اس کے نتائج نے اگلے سال کی کانفرنس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کردیں ہیں۔
دو ہفتے کی بات چیت کے بعد تیار ہونے والے ڈرافٹ کو امریکہ اور چین کی حمایت حاصل تھی، جو گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے والےدو سب سے بڑے ممالک ہیں۔
جنوبی امریکہ کا ملک بولیویا وہ واحد ملک تھا جس نے مسودے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ توقعات سے بہت کم ہے۔
ماحولیاتی گروہوں کے نزدیک یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ تاہم اس مسئلے سے منسلک وہ نکات جن پر سب سے شدید اختلاف پایا جاتا ہے، انہیں اگلی کانفرنس پر چھوڑ دیا گیا ہے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہو گی۔
چین کی وو چنگ وا کا کہناتھا کہ انہیں کسی ایسے معاہدے کی توقع نہیں ہے جس پر قانون سازی ہوسکے کیونکہ اس عمل میں کم ازکم دو سے تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
دوسری جانب ممالک کے مندوبین کو ابھی اپنے ملکوں میں جاکر لوگوں کو اس پرقائل کرنا ہے کہ کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے ان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، ان پر یہ الزام ہے انہوں نے اپنے ملکوں میں آب وہوا کی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے عالمی حدت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
کئی ناقدین نے میکسیکو کے اس تفریحی ساحلی شہر میں ہونے والی کانفرنس کو ایک بے جا خرچ قرار دیا ۔
میکسیکو نے گرین انرجی کی ایک علامت کے طورپر کانفرنس میں بجلی کی فراہمی کے لیے ایک ہوائی چکی نصب کی ، لیکن اس سے صرف ڈیڑھ میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکی جو ضرورت کے مقابلے میں بہت کم تھی۔
ایک برطانوی اخبار نے کانفرنس کے بڑے اجتماع پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دو ہفتوں کے دوران کاربن گیسوں کی روک تھام پر مذاکرات کرنے والے مندوبین نے خود 25 ہزار ٹن کاربن گیسیں خارج کیں۔
آب وہوا کی تبدیلیوں سے متعلق ایک تنظیم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کا اصل مقصد غریب ممالک کے نام پر اربوں ڈالر کی رقم اپنے مقاصد کے لیے اکھٹی کرنا ہے۔
مگرماحولیات کے زیادہ تر ماہرین، ناقدین سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔