آٹھ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل دوپہر ڈھائی بجے طلب کیا گیا ہے جس میں نگراں وزیراعظم کے مجوزہ امیدواران کے ناموں پر غور ہوگا۔
پاکستان میں نگراں وزیر اعظم کا انتخاب سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا امتحان بن گیا ہے اور وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے بعد معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا ہے۔
حکام کے مطابق آٹھ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل دوپہر ڈھائی بجے طلب کیا گیا ہے جس میں نگراں وزیراعظم کے مجوزہ امیدواران کے ناموں پر غور ہوگا۔
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اختلافات
آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد تین روز میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں وزیراعظم کا انتخاب اتفاق رائے سے کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے پر پیپلزپارٹی سودے بازی کرنا چاہتی تھی۔
چوہدری نثار کے بقول پیپلزپارٹی کی جانب سے پیغام ملا تھا کہ آپ پنجاب میں اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ لائیں، مرکز میں ہم اپنا وزیراعظم لائیں گے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے کبھی سودے بازی کی اور نہ آئندہ کرے گی۔
معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ناکامی کے بعد اب نگراں وزیراعظم کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا ہے جس کا پہلا اجلاس بدھ کو طلب کر لیا گیا۔
اجلاس میں سابقہ حکمراں اتحاد کی جانب سے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور اور پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک اور خورشید شاہ شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے سردار مہتاب احمد خان، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور سردار یعقوب شامل ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی کے پاس تین روز ہوں گے اور وہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے چار ناموں پر غور کرکے نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرے گی۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں دو دو نام تجویز کریں گے۔ اپوزیشن کی جانب سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کے نام پیش کیے جاچکے ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے حفیظ شیخ، عشرت حسین اور ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسو میں سے دو نام سامنے لائے جائیں گے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی بھی 22 مارچ تک کسی ایک نام پر اتفاق نہ کر سکی تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔
پارلیمانی کمیٹی پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات
پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی نے اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی نمائندگی دی ہے۔
لیکن قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے چاروں نام مسلم لیگ ن کے ہی سامنے آئے جس کے باعث قومی اسمبلی میں دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سخت تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ قومی موومنٹ نے کمیٹی میں حزبِ اختلاف کے تمام چار ارکان کا تعلق ن لیگ سے ہونے پر برہمی ظاہر کی ہے۔
سابق قومی اسمبلی کے آغاز سے اختتام تک اپوزیشن میں رہنے والی واحد جماعت پیپلز پارٹی شیرپاوٴ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس تمام تر صورت حال میں پارلیمانی کمیٹی پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی نگراں وزیراعظم کا چناوٴ کر سکے گی؟
ملک میں یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ کیا پارلیمانی کمیٹی نگراں وزیراعظم کا متفقہ نام سامنے لا سکے گی۔
اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے منگل کی پریس کانفرنس کے دوران کہہ دیا تھا کہ جب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اتفاق نہیں کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی انتخاب نہیں ہو سکے گا۔
حکومت کی جانب سے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آ سکا۔
حکام کے مطابق آٹھ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل دوپہر ڈھائی بجے طلب کیا گیا ہے جس میں نگراں وزیراعظم کے مجوزہ امیدواران کے ناموں پر غور ہوگا۔
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اختلافات
آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد تین روز میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں وزیراعظم کا انتخاب اتفاق رائے سے کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے پر پیپلزپارٹی سودے بازی کرنا چاہتی تھی۔
چوہدری نثار کے بقول پیپلزپارٹی کی جانب سے پیغام ملا تھا کہ آپ پنجاب میں اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ لائیں، مرکز میں ہم اپنا وزیراعظم لائیں گے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے کبھی سودے بازی کی اور نہ آئندہ کرے گی۔
معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ناکامی کے بعد اب نگراں وزیراعظم کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا ہے جس کا پہلا اجلاس بدھ کو طلب کر لیا گیا۔
اجلاس میں سابقہ حکمراں اتحاد کی جانب سے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور اور پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک اور خورشید شاہ شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے سردار مہتاب احمد خان، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور سردار یعقوب شامل ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی کے پاس تین روز ہوں گے اور وہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے چار ناموں پر غور کرکے نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرے گی۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں دو دو نام تجویز کریں گے۔ اپوزیشن کی جانب سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کے نام پیش کیے جاچکے ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے حفیظ شیخ، عشرت حسین اور ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسو میں سے دو نام سامنے لائے جائیں گے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی بھی 22 مارچ تک کسی ایک نام پر اتفاق نہ کر سکی تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔
پارلیمانی کمیٹی پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات
پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی نے اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی نمائندگی دی ہے۔
لیکن قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے چاروں نام مسلم لیگ ن کے ہی سامنے آئے جس کے باعث قومی اسمبلی میں دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سخت تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ قومی موومنٹ نے کمیٹی میں حزبِ اختلاف کے تمام چار ارکان کا تعلق ن لیگ سے ہونے پر برہمی ظاہر کی ہے۔
سابق قومی اسمبلی کے آغاز سے اختتام تک اپوزیشن میں رہنے والی واحد جماعت پیپلز پارٹی شیرپاوٴ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس تمام تر صورت حال میں پارلیمانی کمیٹی پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی نگراں وزیراعظم کا چناوٴ کر سکے گی؟
ملک میں یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ کیا پارلیمانی کمیٹی نگراں وزیراعظم کا متفقہ نام سامنے لا سکے گی۔
اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے منگل کی پریس کانفرنس کے دوران کہہ دیا تھا کہ جب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اتفاق نہیں کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی انتخاب نہیں ہو سکے گا۔
حکومت کی جانب سے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آ سکا۔