فرانس نے داخلی امور کے انٹیلی جینس کے لیے پہلی بار ایک خاتون کو سربراہ مقرر کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق فرانس کی حکومت نے بدھ کو پولیس افسر سیلائن برتھون کو ڈائریکٹوریٹ جنرل فار انٹرنل سیکیورٹی (ڈی جی ایس آئی) مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈی جی ایس آئی کی سب سے اہم ذمہ داری ملک میں کسی بھی جاسوسی کی کوشش کی انسداد، دہشت گردی سے مقابلہ اور آن لائن جرائم (سائبر کرائم) کے خلاف اقدامات کرنا ہوتا ہے۔
داخلی سیکیورٹی کے لیے سینتالیس سالہ سیلائن برتھون کی تعیناتی کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
سیلائن برتھون قبل ازیں پولیس کمشنرز کی بھی قیادت کر چکی ہیں۔ انہیں ڈائریکٹوریٹ جنرل فار انٹرنل سیکیورٹی (ڈی جی ایس آئی) کے سربراہ نکولس لرنر کی جگہ تعینات کیا گیا ہے جب کہ نکولس لرنر کو کو ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی (ڈی جی ایس ای) مقرر کیا گیا ہے۔ اس ڈائریکٹوریٹ کو 'بیورو' بھی کہا جاتا ہے جس پر ایک مشہور ٹی وی سیریز ’دی بیورو‘ بھی بنائی گئی تھی۔
سیلائن کو رواں برس اپریل میں ملک کی پولیس کے سربراہ کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ دیا گیا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جنہیں پولیس میں نمبر-ٹو عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ اس عہدے پر پہنچنے والی کم عمر ترین افسر بھی تھیں۔
یہی نہیں سیلائن کو 2021 میں پہلی بار فرنٹ لائن پر مختلف آپریشنز کی قیادت کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا۔
بعض افراد سیلائن برتھون کی گزشتہ دو برس میں ہونے والی ترقی پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں وزیرِ داخلہ جیرالڈ درمانان کی وزارت پر رہتے ہوئے ترقی ملی ہے۔
جیرالڈ درمانان نے 2021 میں اعلان کیا تھا کہ ان کی سفارش پر صدر نے پہلی بار ایک خاتون سیلائن برتھون سینٹرل ڈائریکٹوریٹ میں مقرر کیا ہے۔
اس کے بعد رواں برس اپریل میں انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی کہ سیلائن برتھون کو ملک کی پولیس کا نمبر ٹو مقرر کیا گیا ہے۔
اب انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ ان کی سفارش پر صدر نے سیلائن برتھون کو ڈائریکٹوریٹ جنرل فار انٹرنل سیکیورٹی (ڈی جی ایس آئی) کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ یہ عہدہ پہلی بار کسی خاتون کو دیا گیا ہے۔
دی بیورو
نکولس لرنر کی ایکسٹرنل سیکیورٹی انٹیلی جینس کا سربراہ بنانے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ فرانس کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ڈی جی ایس آئی کے سربراہ کو ڈی جی ایس ای کی قیادت سونپی گئی ہو۔نکولس لرنر کی عمر 45 برس ہے۔
انہوں نے ملک کے اہم ترین ادارے نیشنل اسکول آف ایڈمنسٹریشن سے تعلیم حاصل کی ہے۔ فرانس کے موجودہ صدر ایمانوئل میخواں بھی اسے ادارے سے فارغ التحصیل ہیں اور دونوں ایک ہی سال پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ اسی دوران یہ دونوں قریب آئے۔
نکولس لرنر کو ایمانوئل میخواں کے انتہائی قریبی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کا تمام عرصہ وزارتِ داخلہ میں گزارا ہے جس میں زیادہ تر وقت وہ نیشنل سیکیورٹی کے امور سے وابستہ رہے ہیں۔ انہیں 2018 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل فار انٹرنل سیکیورٹی کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔
نکولس لرنر سے قبل فرانس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی کے سربراہ سابق سفارت کار 65 سالہ برنارڈ ایمی تھے۔ برنارڈ ایمی لبنان، ترکی، برطانیہ، الجزائر اور اردن میں فرانس کے سفیر رہے تھے۔ وہ 2017 سے اس ڈائریکٹوریٹ کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کے دور میں ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی میں متعدد اصلاحات کی گئی جب کہ اس کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا۔
برنارڈ ایمی کی قیادت میں ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی کو شدید تنقید کا بھی سامنا رہا۔ کیوں کہ 2022 کے آغاز میں یوکرین پر روس نے حملہ کیا تو اس ڈائریکٹوریٹ پر تنقید کی گئی کہ اس کے پاس پہلے سے کچھ بھی معلومات موجود نہیں تھیں۔ اسی دوران فرانس کی سابقہ نو آبادات افریقی ممالک مالی، برکینا فاسو اور نائجر میں فوجی بغاوتیں بھی ہوئیں اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا گیا۔
فرانس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی کے اہلکاروں کی تعداد لگ بھگ سات ہزار ہے۔ نکولس لرنر اس کے سربراہ ایسے وقت میں تعینات ہوئے ہیں جب یوکرین اور غزہ میں جنگ جاری ہے جب کہ ایران اور مغربی ممالک میں شدید تناؤ کی صورتِ حال ہے۔
نکولس کو افریقہ کے مغربی ممالک پر فرانس کے اثر و نفوذ کی کمی کی صورتِ حال کا بھی سامنا ہوگا جہاں حالیہ مہینوں میں ایک کے بعد ایک ملک میں فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی کا نیا دفتر بھی ان کے ماتحت ہوگا جو اس کے سابقہ دفتر سے کئی گنا بڑا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی کا پرانا دفتر ٹی وی سیریز ’دی بیورو‘ میں بھی دکھایا گیا تھا۔
اس سیریز کو فرانس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ یہ سیزیر دنیا کے لگ بھگ 100 ممالک میں دیکھی گئی تھی۔ اس سیریز پر ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ایکسٹرنل سیکیورٹی نے بھی اس کے حقیقت سے قریب تر ہونے پر داد و تحسین دی تھی۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔