" ہم پر تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے ساتھیوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ میں ابھی بات نہیں کر سکتی۔" گرفتاری سے قبل یہ آخری الفاظ بلوچ کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ہیں جو انہوں نے وائس آف امریکہ کو بذریعہ ٹیکسٹ میسج بھیجے۔
لاپتا افراد کے مسئلہ کو اجاگر کرنے والی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو دیگر خواتین اور بچوں سمیت اسلام آباد پولیس نے بدھ کی شب حراست میں لے لیا ہے۔ انہیں اسلام آباد کے ماڈل پولیس اسٹیشن رمنا میں رکھا گیا ہے۔
بلوچستان کے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کو اسلام آباد پولیس نے بدھ کی شب منتشر کر دیا۔ بلوچ مظاہرین کے مطابق پولیس نے خواتین، بچوں سمیت مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے مطابق پولیس کی جانب سے واٹر کینن کے ذریعے دسمبر کی سرد رات میں مظاہرین کو پانی کے ذریعے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ ان ویڈیوز میں بچوں سمیت متعدد افراد زخمی دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم ابھی زخمیوں کی تعداد واضح نہیں ہے۔
دوسری جانب اس بارے میں ہمارے ساتھی عاصم رانا نے اسلام آباد پولیس سے متعلق بتایا ہے کہ اسلام آباد کے داخلی راستے 26 نمبر چونگی پر مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین نے ایوب چوک پر بھی پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ راستہ روکنے اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف ضابطہ کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو کو 2009 میں تیسری بار اس وقت سادہ لباس میں ملبوس افراد اٹھا کر لے گئے تھے جب وہ کراچی میں اپنی بیوی کی عیادت کے لیے اسپتال جا رہے تھے۔ اسی سال، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خاندان کو کوئٹہ سے کراچی منتقل ہونا پڑا کیوں کہ ان کی بیمار والدہ کو انسٹی ٹیوٹ آف سرجری اینڈ میڈیسن میں داخل کرانا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لاپتا والد کی بازیابی کے لیے بینرز اٹھائے سڑکوں پر نکل آئی اور احتجاج کرتی رہیں۔ دو سال کی جبری گمشدگی کے بعد یکم جولائی 2011 کو ان کے والد عبدالغفار لانگو کی مسخ شدہ لاش کراچی سے ملی۔ ان کے بھائی بھی چند ماہ جبری کمشدگی کانٹے کے بعد گھر لوٹے مگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان کے دیگر لاپتا افراد کے لیے آواز اٹھانا بند نہ کی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2011 سے، جبری گمشدگیوں کی 8,463 شکایات پاکستان کے کمیشن آف انکوائری آن جبری گمشدگیوں کو موصول ہوئی ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور بیشتر کارکنوں کا اندازہ ہے کہ اصل لاپتا افراد کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
حقوق کی تنظیمیں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدلت قتل کا الزام پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں پر لگاتی ہیں تاہم وہ ان الزامات سے انکار کرتی ہیں۔
گزشتہ ماہ نومبر میں پاکستان کی ہائی کورٹ نے ملک کے وزیرِ اعظم کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت درجنوں لاپتا بلوچ طلباء کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے تو انہیں مجرمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ماضی میں بھی پاکستان کی سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کے کیس میں ملوث ہونے کے الزام میں پاکستانی کی خفیہ اور سیکیورٹی ایجنسیز کو بھی طلب کیا تھا۔
یہ دوسری مرتبہ ہے کہ جب جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے معاملات کی طرف ریاست کی توجہ دلانے کے لیے بلوچ مظاہرین سیکڑوں میل سفر طے کر کے بلوچستان سے اسلام آباد پہنچے ہیں۔
نومبر کے آخر میں شروع ہونے والی اس احتجاجی مہم میں کئی مقامات پر بلوچ مظاہرین کو خوش آمدید کہا گیا، مارچ میں شامل مظاہرین کو بیشتر علاقوں میں رکاوٹوں اور پولیس کے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بلوچ مظاہرین کا شکوہ ہے کہ مقامی میڈیا ماضی کی طرح اب بھی اس لانگ مارچ کی کوریج نہیں کر رہا۔
اس سے پہلے 2013 میں لاپتا افراد، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ مسنگ پرسنز کی آواز بننے والے ماما قدیر کی قیادت میں لوگوں کی بڑی تعداد نے بلوچستان سے اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیا تھا۔
فورم