پرویز الٰہی کے وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد بعض مبصرین یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا وہ ماضی کی طرح متحرک اور با اختیار وزیرِ اعلٰی ہوں گے اور کیا وہ وفاق اور پنجاب کی حکومت کے درمیان سیاسی، مالی اور انتظامی معاملات خوش اسلوبی سے چلا سکیں گے؟
اِسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان پنجاب حکومت کو فوری عام انتخابات کے لیے وفاق پر دباؤ بڑھانے کا سہارا بنا سکتے ہیں؟
چوہدری پرویز الٰہی دوسری مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے ہیں۔ انہوں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا جب کہ بدھ سے وہ باقاعدہ اپنا منصب سنبھال لیں گے۔اس کے بعد وہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے مشاورت کے ساتھ کابینہ تشکیل دیں گے۔
بعض مبصرین کے مطابق پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الٰہی کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب بن جانے کے بعد عمران خان بھی متحرک ہوتے نظر آ رہے ہیں اور جمعرات کو وہ بھی لاہور آئیں گے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پرویز الہٰی کو حکومت چلانے کا تجربہ ہے۔ وہ صوبے کے انتظامی اور سیاسی امور بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی ایک تجربہ کار سیاست دان اور منتظم ہیں۔ وہ حکومت چلانے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ اِس سے قبل بھی جب وہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے تو بہتر انداز میں حکومت کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور میں پرویز الٰہی نے ترقیاتی کاموں پر زور دیا تھا اور نئے منصوبے بھی شروع کیے تھے۔ اِس دفعہ بھی اُن سے توقع ہے کہ وہ ایک اچھے وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے البتہ اصل بات یہ ہے کہ اُنہیں کتنا کام کرنے دیا جاتا ہے۔
SEE ALSO: رانا ثناء اللہ کی پنجاب میں گورنر راج لگانے کی دھمکی, کیا موجودہ حالات میں ایسا ہو سکتا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے۔ یہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی یہ پی ٹی آئی کی مرضی ہو گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی کیسے وزیراعلٰی ثابت ہوں گے؟ اِس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں وہ اچھے انتظامی ایڈمنسٹریٹر رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ وہ زیادہ تر بیوروکریسی کی بات مانتے تھے البتہ موجودہ صورتِ حال میں وہ عمران خان کو جواب دہ ہوں گے۔ عمران خان اصولوں کی بات پسند نہیں کرتے۔ پرویز الٰہی کو عمران خان کی باتیں ماننا پڑیں گی، جس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں 1988 میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جب کہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد نے حکومت سازی کرتے ہوئے نوازشریف کو وزیرِ اعلیٰ بنایا تھا۔
SEE ALSO: 'پہلا مشن مکمل، اب عمران خان کو واپس اپنی کرسی پر لے کر آئیں گے'وفاق اور پنجاب میں الگ الگ جماعتوں کے برسرِ اقتدار آنے سے پیدا ہونے والی کشمکش سے وفاقی حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔
اِسی طرح 1990 میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی اور نواز شریف وزیرِ اعظم بنے البتہ اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے ساتھ اُن کے تعلقات اچھے نہ ہونے کے باعث پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وٹو وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 میں وفاق میں حکومت بنائی تھی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
وفاق میں یوسف رضا گیلانی اور بعد میں راجہ پرویز اشرف وزیرِ اعظم رہے جب کہ شہباز شریف اس دوران پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔ اِس دور میں بھی وفاق اور صوبے کے درمیان ماحول تناؤ کا شکار رہا۔
تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ پرویز الٰہی بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب وفاقی حکومت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
اُن کے خیال میں وفاقی حکومت کو ختم کرنے کے لیے پرویز الہٰی کو وزیراعلٰی پنجاب بنایا گیا ہے کیوں کہ وفاقی حکومت کا سب سے بڑا حصہ پنجاب میں تھا۔
SEE ALSO: جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ صرف 18 نشستیں رکھنے والی جماعت کو دی گئیافتخار احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2011 سے مسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کیا گیا، جس میں ملک کا خفیہ ادارہ بھی ملوث رہا۔ البتہ منصوبے بنانے والے ناکام رہے۔ ان کے مطابق آخری منصوبہ عمران خان کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ تھا جو کہ ناکام رہا۔ اِس منصوبے میں اَب پرویز الٰہی کو شامل کیا گیا ہے۔
افتخار احمد کے بقول چوہدری پرویز الہٰی مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے اورایم پی اے توڑنے کی کوشش کریں گے۔ وہ حکومت کے ساتھ براہِ راست کوئی شرارت نہیں کریں گے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی وفاقی حکومت پر دباؤ کے لیے استعمال ہوں گے۔ اب ظاہر ہےکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو وفاقی حکومت پر یہ دباؤ ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت تو بہت محدود ہو گئی ہے۔ صرف اسلام آباد تک رہ گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کا تعلق زیادہ خراب نہیں ہو گا۔ اِن کے درمیان لڑنے جھگڑنے کے امکانات کم ہیں کیوں کہ دونوں سمجھ دار ہیں۔ بہتر ہے کہ آپس میں صلاح مشورہ سے چلیں۔ انتخابات کی تاریخ اور معاشی ایجنڈا طے کریں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق ابھی تک تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات جب بھی ہوں، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) مل کر الیکشن لڑیں گی۔
صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ عمران خان جو ہر وقت نئے انتخابات کا مطالبہ کیا کرتے اَب اچانک گزشتہ ایک ہفتے سے خاموش کیوں ہو گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بننے کے بعد وفاق کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ مرکز میں اتحادی جماعتوں کی حکومت پر مبصرین تنقید کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومتیں ہیں۔