تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے اور وہاں اپنی فوجیں بھیجنے کے روسی فیصلے نے چین کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے جسے ماسکو کا زیادہ قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب اگر اسے روس کی جانب سے بین الاقوامی سرحدوں کو تبدیل کرنے کے یک طرفہ فیصلے کے حامی کی حیثیت سے دیکھا گیا تو اسے بھی اس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کی حکومت نے پیر کے روز ان دونوں خطوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد، ان متنازع میں علاقوں میں فوج بھیجنے کا حکم دیا، جسے روس “امن فوج” کہتا ہے۔ یہ اقدامات صدر پوٹن کی ایک پرجوش تقریر کے بعد کیے گئے جس میں انہوں نے یوکرین کی ریاستی حیثیت پر سوالات بھی اٹھائے، جس سے ان شبہات کو مزید تقویت ملی کہ وہ یوکرین پر ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یہ صورت حال چینی راہنما شی جن پنگ کے لیے مشکل اور پیچیدہ ہے، جنہوں نے اس ماہ کے اوائل میں پوٹن سے ایک ملاقات کے بعد روس کے ساتھ ایک لا محدود پارٹنر شپ کا اعلان کیا تھا۔ دونوں راہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات اس بات کا تازہ ترین ثبوت تھا کہ روس اور چین ایک ایسے ماحول میں زیادہ قریب آ گئے ہیں جب کہ وہ دونوں امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کو گھٹانے کی کوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یوکرین کا مسئلہ اب انہیں اس آزمائش میں ڈال رہا ہے کہ یہ بڑھی ہوئی پارٹنر شپ کتنی دور جاسکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید چین کو بیرون ملک افراتفری اور غیر یقینی صورت حال کے بارے میں تشویش ہے جو اس کی معیشت پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔اور وہ بھی ایک ایسے سال کے دوران، جب صدر شی کے ایک متوقع لا متناہی دور حکومت کی تشکیل کے لیے چین کے اندر حساس نوعیت کی سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔
SEE ALSO: یوکرین تنازع پر روس مغرب کشیدگی کو چین کس زاویے سے دیکھ رہا ہے؟چین عرصے سے اس بات پر اصرار کرتا آ رہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہے اور اسے اس حوالے سے بھی تشویش ہو گی کہ موجودہ صورت حال میں روس کی حمایت اس کی بین الاقوامی شہرت کو نقصان پہنچائے گی۔
ہفتے کے روز چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے میونخ میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ تمام ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کیا جانا چاہیے اور یوکرین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
حالیہ ہفتوں میں چین نے یوکرین میں تمام فریقوں سے صبر و تحمل سے کام لینے اور منسک معاہدوں کی طرف رجوع کرنے کا کہا تھا۔
ایک امریکی تھینک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے ایشیائی امور کے تجزیہ کار ڈیرک گروسمین کہتے ہیں کہ یوکرین کے دو متنازع خطوں کو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے تسلیم کرکے پوٹن نے منسک معاہدوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، جس سے اس حوالے سے چین کے موقف کو نقصان پہنچا ہے۔گروسمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو معاہدے وغیرہ سب کچھ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔
پیر کو دیر گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کے مسئلے پر ایک ہنگامی میٹنگ سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ میں چینی مندوب ژانگ چھن نے اپنے مختصر ریمارکس میں صرف تمام فریقوں سے صبرو تحمل سے کام لینے کا کہا مگر منسک معاہدوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
امریکہ کے جرمن مارشل فنڈ میں ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر بونی گلیسر کہتی ہیں کہ چین ابھی یہ فیصلہ نہیں کر سکا ہے کہ اسکی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ کے جان شی کی رپورٹ کے مطابق ایسی علامات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بیجنگ کو اس پر پریشانی ہے کہ روس یوکرین تنازع میں چین کے قومی مفاد کو ایک ایسی صورت حال میں نقصان پہنچ رہا ہے جب مغرب کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ رہے ہیں اور اس کی معیشت سست پڑ رہی ہے۔
رپورٹ میں اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بیجنگ یہ اندازہ لگا رہا ہے کہ یو کرین کے مسئلے پر وہ روسی صدر پوٹن کی کتنی حمایت کر سکتا ہے اور اسی رپورٹ کے مطابق معاملے سے آگاہ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بارے میں باہم صلاح مشورہ کیا ہے کہ چین کو اس بحران کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اس کا مفاد محفوظ رہے۔