چین نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ اپنے حکام پر ویزا کی پابندی عائد کیے جانے کے جواب میں امریکی حکام پر ویزا پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس ماہ کے اوائل میں ان چینی حکام پر پابندی کا اعلان کیا تھا جو، ان کے بقول، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف جابرانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سے امریکی اہلکار ہیں، لیکن کہا کہ انھوں نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں، بقول ان کے، دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔
وانگ نےالزام لگایا کہ امریکہ نے انسانی حقوق کے نام نہاد مسائل کا بہانہ بناکر بدنیتی پر مبنی اور دروغ گوئی سے کام لیا اور انھیں چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے، اس کی ساکھ کو خراب کرنے اور چینی حکام کو دبانے کے لیے استعمال کرتا ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''ان اقدامات کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے اور یہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چین اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے''۔
چینی ترجمان نے کہا کہ ''چین کی خود مختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اور چینی حکام کے جائز حقوق اور مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چین نے ان امریکی حکام پر باہمی ویزا پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنھوں نے چین سے متعلق انسانی حقوق کے معاملات پر جھوٹ پر مبنی بنیاد پر چین پر پابندیوں کی وکالت کی اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا''۔
SEE ALSO: نظر رکھے ہوئے ہیں کہ چین یا کوئی اور پابندیوں سے بچنے میں روس کی مدد تو نہیں کر رہا؛ بائیڈن انتظامیہوانگ نے اس ماہ کے شروع میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چینی حکام پر سے اپنی پابندیاں ہٹائے یا پھر جوابی اقدامات کا سامنا کرے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بیجنگ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلم ایغور اقلیت کے خلاف نسل کشی کررہا ہے۔ بیجنگ اس الزام کی تردید کرتاہے۔
بلنکن نے گزشتہ ہفتے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو بشمول ان لوگوں کے جو بیرون ملک تحفظ کے خواہاں ہیں اور وہ امریکی شہری جو ان متاثرین کی طرف سے بات کر تے ہیں، ہراساں کرنے ، ڈرانے ، نگرانی کرنے، یہاں تک کہ انھیں اغوا کرنے کی کوشش کرتاہے۔
(اس خبر میں کچھ مواد خبررساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے)