چین نے کہا کہ اس نے تائیوان کے قریب تین روزہ فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ بیجنگ کا یہ اقدام تائیوان کی صدر کی امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی کے ساتھ حالیہ ملاقات کے ردعمل میں انتقام کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
چینی فوج نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ تائیوان کے ارد گرد جنگی تیاریوں کے گشت اور "جوائنٹ سورڈ" نام کی مشقیں منصوبہ بندی کے مطابق شروع ہو گئی ہیں۔
بیان کے مطابق یہ مشقیں "تائیوان کی آزادی کی حمایتی قوتوں کی ملی بھگت اور اشتعال انگیزی کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے۔"
چینی فوج نے مشقوں کو آپریشنز بیان کرتے ہوئے انہیں "چین کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت" کے تحفظ کے لیے "ضروری" قرار دیا۔
خیال رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور کئی مواقع پر یہ عندیہ دے چکا ہے کہ وہ بزورِ طاقت اسے ضم کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ لیکن تائیوان کا دعویٰ ہے کہ وہ خود مختار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب تائیوان کی وزارتِ دفاع نے ہفتے کو کہا کہ جزیرے کے ارد گرد آٹھ چینی جنگی جہاز اور 42 لڑاکا طیاروں کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔
وزارت نے کہا کہ تعینات کیے گئے چینی جہازوں میں سے کچھ نے اس آبنائے کی درمیانی لائن کو عبور کیا تھا جو تائیوان کے جزیرے کو سرزمین چین سے الگ کرتی ہے۔
تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے مشقوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان امریکہ اور دیگر جمہوریتوں کے ساتھ کام جاری رکھے گا کیونکہ جزیرے کو چین کی طرف سے "مسلسل آمرانہ توسیع پسندی" کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کی ون چائنا" پالیسی ہے، جو اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ بیجنگ تائیوان کو چین کا حصہ تصور کرتا ہے۔ تاہم امریکہ تائیوان کی حیثیت کو غیر متزلزل سمجھتا ہے اور خود مختار جزیرے کو اپنے دفاع میں مدد کے لیے فوجی امداد بھیجتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اکثر کہا ہے کہ اگر چین نے حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا فوجی طور پر دفاع کرے گا، حالانکہ واشنگٹن کا یہ مؤقف برقرار ہے کہ اس کی "ون چائنا" پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
گزشتہ سال سائی نے تائیوان میں اس وقت کی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کی میزبانی کی تھی۔ اس کے ردعمل میں چین نے خود مختار جزیرے کے ارد گرد دہائیوں میں اپنی سب سے بڑی "لائیو فائر" فوجی مشقوں کا انعقاد کیا تھا۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات اے ایف پی اور رائترز سے لی گئی ہیں)