چین کی کمیونسٹ پارٹی کے مذہبی مقامات سے متعلق جاری کیے گئے نئے ضوابط جمعے سے نافذ ہو گئے ہیں جن سے مذہبی آزادیوں کے مزید محدود ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں سے متعلق جاری کردہ ضوابط میں کہا گیا ہے کہ وہاں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا، سوشلسٹ نظام اور چین کے قومی کردار کے لیے صدر شی جن پنگ کے تصورات کی حمایت کا اظہار کیا جائے۔
نئے ضوابط کے مطابق کسی تنظیم یا فرد کے لیے مذہبی مقامات کو قومی سلامتی کے خلاف یا معاشرے کے نظم و نسق کو خراب کرنے، عوامی مفاد یا قانونی حقوق متاثر کرنے کے لیے استعمال کرنے پر پابندی ہو گی۔
چین میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’بٹر ونٹر‘ نے گزشتہ ہفتے یہ اطلاع دی تھی کہ کمیونسٹ پارٹی کے نئے احکامات میں مذہبی سرگرمیوں کے مقامات پر پارٹی کے پروپیگنڈے کی نشر و اشاعت کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے نئے سخت ضوابط میں مذہبی خطبات میں کمیونسٹ پروپیگنڈے شامل کرنے اور عبادت گاہوں میں پارٹی کے نظریات سے متعلق لٹریچر رکھنے اور اسٹڈی سرکل منعقد کرانے کی ہدیات بھی شامل ہے۔
ان ضوابط میں گرجا گھروں اور مندروں وغیرہ کے باہر کھلے مقامات پر مذہبی مجسمے یا مورتیاں نصب کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ شہریوں پر ایسے کسی منصوبے کے لیے چندہ یا مالی معاونت فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
رواں برس سال 2022 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ کے اجرا سے قبل 15 مئی کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین ان ممالک میں شامل ہے جہاں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔
لیو فینگینگ بیجنگ میں قائم ایک چرچ کے پاسچر رہ چکے ہیں۔ وہ چین میں مذہبی آزادی کے لیے کام کرنے کی پاداش میں کئی برس قید گزارنے کے بعد کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔
وائس آف امریکہ کے لیے یانگ منگ کی رپورٹ کے مطابق فینگینگ کا کہنا ہے کہ نئے ضوابط کے مطابق چین میں بسنے والے مسیحیوں کو کمیونسٹ پارٹی اور سوشلزم کی حمایت کرنا ہو گی۔ انہیں بنیادی طور پر پارٹی میں شامل ہونے کے لیے ہی کہا جارہا ہے۔
SEE ALSO: نیویارک سٹی میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کی اجازتامریکہ میں مقیم چین سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل چن جیانگینگ کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ مذہبی افراد کو سوشلزم سے متعلق چینی صدر شی جن پنگ کے افکار کی حمایت کا پابند کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین کے جاری کردہ حالیہ ضوابط نے چینی عوام کی مذہبی آزادیوں کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔
سماجی تحقیق کے امریکی ادارے ‘پیو‘ کی 30 اگست کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق چین کی حکومت بدھ مت، کیتھولک ازم، اسلام، پروٹیسٹنٹ ازم اور تاؤ ازم کو مذہب کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت ان پانچ مذاہب کے ماننے والوں کی کڑی نگرانی کرتی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں، ان کی تعمیر، وہاں خدمات انجام دینے والے مذہبی پیشواؤں وغیرہ کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ان پانچ مذاہب کے علاوہ کسی گروہ کو مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس رپورٹ میں یہ نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ 2012 میں صد شی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مذہبی سرگرمیوں سے متعلق چینی حکومت کے ضوابط مزید سخت ہوئے ہیں۔ صدر شی کے دور میں 2018 اور 2021 میں نئے ضابطے بھی متعارف کرائے گئے۔
جمعے سے نافذ ہونے والے نئے ضوابط کے مطابق گرجا گھروں، مساجد اور مذہبی رسوم و عبادات کے لیے مخصوص دیگر مقامات کی از سرِ نو رجسٹریشن کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذہبی امور سے متعلق کمیونسٹ پارٹی کے نئے ضابطوں کی خلاف ورزی کی صورت میں قید، جرمانے، جائیداد کی ضبطی اور غیر رجسٹرڈ مذہبی مقامات یا عبادت گاہوں کو بند کرنے جیسی سزائیں رکھی گئی ہیں۔