چینی صدر شی جن پنگ نے اتوار کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور مختلف امور پر دوطرفہ بات چیت کی ہے، جس میں دونوں رہنماوں نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو روکنے میں مدد کےلیے بین الااقوامی امداد فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
یہ ملاقات بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے آئے عمران خان کے چار روزہ دورے کے اختتام پر ہوئی۔ پاکستانی وزیر اعظم ان عالمی رہنماوں میں شامل تھے جنھیں اس افتتاحی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا ۔
ملاقات کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں چین اور پاکستان کی جانب سےعالمی برادری سےافغانستان کےمنجمد مالی اثاثوں کو بحال کرنے اور اسے بہتر اور مسلسل ا مداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری سے موسوم اربوں ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہےکہ دونوں فریق سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے لیے تیار ہیں"۔
سی پیک بیجنگ کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کا حصہ ہے جس کے تحت چینی سرمایہ کاری سے پاکستان میں سڑکیں، پاور پلانٹس اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے منصوبے تعمیر کیے جارہے ہیں۔
SEE ALSO: عمران خان کی صدر شی سے ملاقات، 'چین پاکستان کا آئرن برادر اور کٹر حامی ہے'گزشتہ اگست میں جب طالبان نے افغانستان کا کنڑول سنبھالا تو اس پر عالمی پابندیاں دوبارہ عائدکردی گئیں اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے فوری طور پر افغان مرکزی بنک کے ساڑھے نو ارب ڈالر کے اثاثے جو زیادہ تر نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں پڑے تھے منجمد کردیے ۔ ان پابندیوں نے مکمل طور پر امداد پر انحصار کرنے والی افغان معیشت کوتباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور تنازعات سے متاثرہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں انسانی بحران کو تیز کردیا ۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق دو کروڑ چالیس لاکھ افراد یا نصف سے زیادہ آبادی شدید بھوک کی شکارہے۔
امدادی ایجنسیوں کے مطابق بین الاقوامی پابندیوں اور تعزیرات ، افغانستان کو انتہائی ضروری امداد کی فراہمی میں بھی رکاوٹ پیدا کررہی ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ ان خدشات کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے حل کے لیے کوئی اقدام نہیں کررہی۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا تھا کہ واشنگٹن افغانستان کی نقدی کی کمی کو پورا کرنے کےلیے مختلف پہلووں کا جائزہ لے رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ " بالآخر ایک فعال افغان معیشت کو ایک آزاد اور تکنیکی صلاحیتوں کےحامل مرکزی بینک کی ضرورت ہوگی جو کہ بینکنگ کے بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہو، جبکہ امریکہ میں افغان مرکزی بینک کے ذخائر ، جاری قانونی سازی سے مشروط ہیں۔ ہم افغانستان کے لوگوں کی مدد کے لیے دستیاب ذخائر کا جائزہ لینے کےمطالبے کوتسلیم کرتے ہیں"۔
دریں اثنا چین اور پاکستان نے حالیہ مہینوں میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا ہے، تاکہ بحران کے شکاراس ملک میں انسانی امداد کی فراہمی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے کی راہیں نکال سکیں۔
افغانستان کے پڑوسی چین اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو افغان مہاجرین کے ریلے ان کی جانب رخ کریں گے اور بین الاقوامی دہشت گرد وں کو سرحد کے آر پارحملوں کےلیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی ترغیب ملے گی۔
چین کی سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ شی نے بہتر اور مشترکہ مستقبل کے لیے عمران خان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتری لائی جاسکے اور خطے میں تعاون اور استحکام کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔
شی نے دو طرفہ اسٹریٹجک تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقتصادی تعاون ، علاقائی روابط اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو مزید مضبوط کریں۔
چینی حکام طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ کالعدم' ایسٹ ترکستان اسلامک مومنٹ' (ای ٹی ائی ایم) سے منسلک عسکریت پسند چین کے مغربی سنکیانگ سرحدی علاقےمیں دہشت گرد حملوں کےلیے افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ علیحدگی پسند ای ٹی ائی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ سنکیانگ میں اقلیتی ایغور مسلم کمیونٹی کےلیے لڑ رہی ہے۔ چین نے ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کی ہے۔
دیں اثنا پاکستانی رہنماوں کا کہنا ہے کہ کالعدم پاکستانی طالبان نےسرحد پار افغان علاقےمیں پناہ گاہیں قائم کررکھی ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بناتے ہیں۔
بیجنگ اور اسلام آباد دونوں طالبان پر دباو ڈال رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی وعدوں کے مطابق اپنی سرزمین سے ایسی سرگرمیوں کو روکیں۔
اتوار کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم عمران خان نے طالبان حکمرانوں کے ساتھ چین ، پاکستان ، افغانستان سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت کا عہد کیا ۔