چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے حال ہی میں بھارت کی سرحد کے قریب مشرقی لداخ میں 60 ہزار جون تعینات کر کے اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے مشرقی لداخ میں بھارت کے زیرِانتظام علاقے کے بالمقابل لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر 60 ہزار فوجی جوان تعینات کر رکھے ہیں اور اس کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی جاری ہے۔
خیال رہے کہ اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی حد بندی ہر تنازع ہے۔
جون 2020 میں یہ تنازع تصادم کی شکل اختیار کر گیا تھا جب 15 اور 16 جون کی شب ہونے وادیٔ گلوان میں ہونے والی ایک جھڑپ میں 20 بھارتی فوج ہلاک ہو گئے تھے۔
واقعے کے بعد چین نے اپنی فوج کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیلات نہیں دی تھیں، لیکن چند ماہ بعد چین نے اعتراف کیا تھا کہ اس جھڑپ میں اس کے بھی چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
سرحدی تنازع پر ہونے والی اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اور سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا تھا جب کہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بھی متاثر ہوئے تھے۔
البتہ ایک بار پھر چین کی جانب سے مشرقی لداخ میں جھنڈا لہرانے پر بھارت کی اپوزیشن جماعتوں سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی مناسب اقدامات کرے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارت نے بھی چین کی کسی بھی قسم کی کوشش کو روکنے کے لیے لگ بھگ اتنے ہی جوان اس علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی 'اے این آئی' کے مطابق چین نے موسمِ گرما میں تربیت کے لیے اپنے جوانوں کو بڑی تعداد میں اس علاقے میں بھیجا تھا۔ البتہ اب یہ جوان دوبارہ اپنے مقررہ مقامات کو جا چکے ہیں۔
رپورٹ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ چین کے فوجیوں کی واپسی کے باوجود وہاں اب بھی 60 ہزار چینی جوان تعینات ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق چین نے ایل اے سی پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری رکھی ہوئی ہے۔ پینگانگ جھیل کے قریب دولت بیگ اولڈی کے بالمقابل سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بھی چین کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ بھارت نے راشٹریہ رائفل یونیفارم فورس مشرقی لداخ میں اپنی سرحد کے اندر تعینات کی ہے اور بھارت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کر رہا ہے۔
دونوں افواج نے ایک دوسرے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے بفر زون میں بڑی تعداد میں جاسوسی ڈرونز بھی لگائے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بھارتی وزارتِ دفاع نے سال کے اختتام پر کیے جانے والے جائزے میں کہا ہے کہ اس کے مطابق ایل اے سی کی موجودہ صورتِ حال کو بدلنے کے لیے چین کے مبینہ یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات کا مناسب انداز میں جواب دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت کا خلا میں فوجی صلاحیت بڑھانے کا ارادہ، چین کی سرحد پر مزید 50 ہزار فوجی تعیناتخیال رہے کہ 15 جون 2020 کو دونوں ملکوں کی افواج میں خون ریز ٹکراؤ کے بعد کشیدگی کو کم کرنے اور افواج کو واپس اپنے مقام پر لے جانے کے لیے ملٹری کمانڈرز کی سطح پر کئی مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں اور اب ایک اور مرتبہ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک کی افواج متعدد متنازع مقامات سے پیچھے ہٹی ہیں۔ لیکن جہاں سے یہ افواج واپس نہیں ہوئی وہاں بڑی تعداد میں جوان تعینات ہیں۔
گلوان وادی میں چین کا جھنڈا
دوسری جانب چین کے سرکاری میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو گلوان وادی میں اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
البتہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ چینی جوانوں نے کس مقام پر یہ جھنڈا لہرایا ہے۔ تاہم چین کے اس اقدام پر بھارت میں حکومت سے کئی سوالات کیے جا رہے ہیں۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ گلوان وادی پر بھارت کا جھنڈا ہی اچھا لگتا ہے۔ چین کو جواب دینا ہو گا۔ نریندر مودی خاموشی توڑیں۔
نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق فوج کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کی جہاں سے افواج پیچھے ہٹی ہیں خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
اے این آئی نے منگل کے روز بھارتی فوج کے ذرائع کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی فوج نے بھی نئے سال پر گلوان وادی میں اپنا جھنڈا لہرایا تھا۔
چین نے نیا سرحدی قانون وضع کردیا
دوسری جانب چین نے ایک نیا سرحدی قانون منظور کیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ملک کی زمینی سرحدوں کے تحفظ اور اسے کسی بھی قسم کے استحصال سے بچانے کے لیے یہ قانون وضع کیا گیا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ چین کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت مقدس اور ناقابل تسخیر ہے اور ان کے تحفظ کے لیے ریاست کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
چین کے بقول یہ قانون ریاست کو اختیار دیتا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں دفاع سمیت معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرے اور وہاں عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے۔
'چین گلوان میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے'
دفاعی تجزیہ کار پرین ساہنی کہتی ہیں کہ گلوان وادی میں چین کی سرگرمیاں مستقل جاری ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ چین نے 2020 میں وادی میں بھارت کی سرحد کے اندر خیمہ نصب کردیا تھا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے جوانوں میں تصادم ہوا تھا اور بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے۔
SEE ALSO: وادیٔ گلوان: چین، بھارت جھڑپوں کے ایک برس بعد دونوں ملکوں کے تعلقات اب کیسے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ چین نے اب اس خیمے کو ہٹا کر وہاں اپنے پختہ بنکر بنا لیے ہیں اور پورا بنیادی ڈھانچہ تیار کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں ملٹری کمانڈز کی سطح پر چودہویں دور کے مذاکرات ہونے ہیں۔ تاہم ابھی اس کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے چین کے نئے سرحدی قانون کے حوالے سے کہا کہ چین نے اس قانون میں کہا ہے کہ اب یہ سرحدی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ ہماری خود مختاری کا معاملہ ہے۔ اگر وہ خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لڑنے کو تیار ہیں۔
'چین نے مودی حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے'
ان کے بقول چین نے مودی حکومت کو بہت واضح انداز میں یہ پیغام دے دیا ہے کہ چودہویں دور کے مذاکرات میں اور اس کے آگے بھی جو کچھ ہوگا ہم طے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ بھارت میں سیکیورٹی پالیسی وضع کرنے والے یا ملٹری کمانڈرز کو ابھی تک چین کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا ہے۔
پروین ساہنی کے بقول بھارت نے ڈوکلام میں طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن سچ بات یہ ہے کہ چین کے مقابلے میں فوجی اعتبار سے اس کی طاقت بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے چین کے معاملے پر خاموش رہنے کی ایک پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ حزبِ اختلاف کے رہنما حکومت سے چین کے بارے میں جو بھی سوال کرتے ہیں، حکومت کوئی جواب نہیں دیتی۔
ان کے خیال میں مودی حکومت نے یہ مؤقف اپنے ووٹ بینک کو سامنے رکھ کر اختیار کیا ہے۔ موجودہ حکومت جو بھی فیصلے کرتی ہے اپنے حامیوں کی خوشی کو مدنظر رکھ کر کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان یہ تنازع ڈوکلام سے شروع ہوا تھا اور اب یہاں تک پہنچ گیا ہے۔
ان کے بقول چین نے بھارت کو ایک طرح سے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پوری گلوان وادی چین کی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔
بھارتی حکومت کیا کہتی ہے؟
ادھر بھارت کی حکومت نے اپنے اس مؤقف کا بارہا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی چین کے قبضے میں نہیں جانے دے گا۔ گلوان وادی میں جھڑپ کے بعد وزیرِاعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ نہ کوئی ہماری سرحد کے اندر آیا نہ وہاں موجود ہے اور نہ ہماری زمین کے کسی حصے پر قابض ہے۔
وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ بھی متعدد بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ چین ہماری زمین پر قابض نہیں ہے۔
قبل ازیں چین نے اروناچل پردیش کے 15 مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں جن میں آٹھ قصبات بھی شامل ہیں۔ البتہ بھارت نے چین کے اس قدم کو مسترد کر دیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا ہے کہ چین کے اس قدم سے اروناچل پردیش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اروناچل پردیش بھارت کا لازمی حصہ ہے۔
ان کے بقول یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین نے ایسا کیا ہے۔ وہ 2017 میں بھی نام تبدیل کر چکا ہے۔
خیال رہے کہ چین اروناچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔