جب صدر بننے سے پہلے شی جن پنگ منظر سے 'غائب' ہوئے

فائل فوٹو۔

یہ ستمبر 2012 کی بات ہے کہ چین کے نائب صدرشی جن پنگ اچانک منظرِ عام سے غائب ہوگئے۔ یہ چین میں قیادت کی تبدیلی کا دور تھا اور کچھ ہی عرصے بعد شی جن پنگ ملک کے سربراہ بننے والے تھے اس لیے عالمی میڈیا میں ان کی غیر موجودگی کو محسوس کیا گیا۔

اگرچہ شی جن پنگ بعد میں سامنےآگئے اور ملک کے صدر بھی بنے۔اوران کے منظر سے غائب ہونے کے بارے میں ایک دلچسپ کہانی بھی سامنے آئی لیکن ان کے دورِ صدارت میں لاپتا ہونے والے کئی افراد کا رابطہ یا تو آج بھی بیرونی دنیا سے منقطع ہے یااگر وہ سامنے آئے بھی ہیں تو خاموش ہیں۔ اس فہرست میں حالیہ اضافہ چین کے سابق وزیرِ خارجہ چن گانگ کاہے۔

گزشہ ہفتے چین کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے نے وزیرِ خارجہ چن گانگ کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے چند ہی گھنٹوں بعد ان کی سابق وزارت سے ان کا نام اور تصاویر غائب ہونی شروع ہوگئیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اب چن گانگ کا نام چینی وزراتِ دفاع پر موجود سابق وزرائے خارجہ کی فہرست سے بھی نکال دیا گیا ہے۔

چن گانگ کو منظر سے غائب ہوئے تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اب نوبت یہاں تک آچکی ہے ویب سائٹ پر چن گانگ کا نام تلاش کرنے پر ’کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں‘ کا پیغام سامنے آجاتا ہے۔

ایک واقعہ 25 سوال

ایک ہفتے قبل چینی وزارتِ خارجہ نے اپنی مختصر وضاحت میں صحت سے متعلق اسباب کو چن گانگ کی عہدے سے علیحدگی کا سبب بتایاتھا تاہم بعد میں یہ حصہ سرکاری بیان کی عبارت سے حذف کردیا گیا۔

اس کے بعد سے چن گانگ کے بارے میں قیاس آرائیوں اور سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

گزشتہ جمعرات کو چینی وزاتِ خارجہ کی ترجمان نے کہا تھا بیجنگ جلد ہی چن گانگ کے معاملے پر تفصیلی معلومات فراہم کرے گا۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں اٹھنے والے سوالات کو ’بد نیتی پر مبنی سنسنی‘ قرار دیا تھا۔

چین کے سابق وزیرِ خارجہ چن گانگ

لیکن تاحال اس بارے میں کوئی واضح معلومات سامنے نہیں آئی ہیں اور حالیہ دنوں میں چینی وزارتِ خارجہ کی بریفنگ میں چن گان سے متعلق لگ بھگ 25 سوالات کیے گئے تھےلیکن حکام نے ان کا جواب سے گریز کیا۔

امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فورن ریلیشنز کے مطابق چن گانگ کے منظر سے غائب ہونے کے اسباب جلد یا بدیر سامنے آجائیں گے۔ چین میں ماضی میں بھی کئی اہم سرکاری عہدے دار یا معروف شخصیات کی اچانک نظروں سے اوجھل ہونے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

کونسل کے مطابق چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی جن افراد کو ناقابلِ اعتبار سمجھتی ہے انہیں مںظر سے غائب کرتی رہی ہے۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے یا کسی بھی ناقد یا ناپسندیدہ شخصیت کو غیر مؤثر کرنے کے لیے چین کی کمیونسٹ پارٹی کایہ دیرینہ حربہ ہے۔

جنہیں خاموش کردیا گیا

اختلافِ رائے کی بنیاد پر کسی اعلیٰ ترین حکومتی عہدے دار کو منظر سے ہٹانے کی معروف ترین مثال چین کے سابق وزیرِ اعظم ژاؤ زنگ کی ہے۔ انہوں نے 1989 میں سیاسی آزادیوں کے لیے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر میں ہونے والے طلبہ کے احتجاج سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی مخالفت کی تھی۔

اس اختلافِ رائے کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جیسے بااختیار عہدے پر فائز رہنے والے ژاؤ زنگ کو گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ وہ 2005 میں اپنی موت تک لگ بھگ 16 سال رہائش گاہ تک محدود رہے۔

سابق وزیرِ اعظم ژاؤ زنگ

چین میں انسانی حقوق کے ایک وکیل گاؤ ژیشنگ 2017 سے لاپتا ہیں۔ انہوں نے 2004 میں چین کے ایک مذہبی گروپ فولان گونگ کے خلاف کارروائیوں پر آواز اٹھانے کے لیے چین کی پارلیمنٹ نیشنل پیپلز کانگریس کے نام خط لکھا تھا۔

حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت جب چین میں اس گروپ کے بارے میں کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا، گاؤ نے اس دور میں حکومت کی پالیسی پر آواز بلند کی۔ ایمنسٹی نے گاؤ کو ’بہادر ترین وکیل‘ بھی قرار دیا تھا۔

گاؤ ژینشنگ کو 2009 میں حکومت نے خاموش کرانے کی کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد انہیں مبینہ طور پر جبراً ان کے آبائی گاؤں بھیج دیا تاہم 2017 کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔

گاؤ زیشنگ

حکومت کے کسی اہل کار کے خلاف تنقید یا الزام لگانے کے جرم میں مںظر سے غائب ہونے کی حالیہ مثال ٹینس کی صفِ اول کی چینی کھلاڑی پنگ شوئے ہیں۔

ویمن ٹینس ایسوسی ایشن نے انہیں ٹینس کی بہترین کھلاڑی قرار دیا تھا اور پنگ شوئے یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی چینی کھلاڑی تھیں۔ انہوں نے نومبر 2021 میں اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں سابق نائب وزیرِ اعظم ژینگ گاؤلی پر جبراً جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔

اپنی اس پوسٹ کے بعد پنگ شوئے کو منظرِ عام سے 'غائب' کردیا گیا۔ فروری 2022 میں مبینہ طور پر ایک طے شدہ انٹرویو میں انہوں نے اپنے الزامات کی تردید کی اور بیجنگ اولمپکس میں بھی انہیں کچھ مواقع پر کڑی نگرانی میں منظر پر لایا گیا تاہم اس کے بعد ان سے کسی کا رابطہ نہیں ہے۔

پنگ شوئے

علی بابا کے بانی جیک ما

حالیہ برسوں میں عالمی شہرت یافتہ ای کامرس پلیٹ فورم کے بانی جیک ما کے منظر سے غائب ہونے کا چرچا رہا۔ مبصرین کے مطابق بیجنگ میں کمیونسٹ قیادت اپنی بزنس کمیونٹی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہتی ہے۔ کاروباری شخصیات کی جانب سے حکومتی پالیسی پر کسی بھی تنقید کر برداشت نہیں کیا جاتا۔

اکتوبر 2020 میں حکومت کی جانب سے عائد کردہ سخت گیر ضوابط پر تنقید کے بعد جیک ما تقریباً تین ماہ تک مںظر عام سے دور رہے۔ اس دوران ان کی کمپنی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا اور یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ جیک ما چین چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔

تاہم تین ماہ بعد جنوری 2021 میں علی بابا کمپنی نے ان کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے منظر سے 'غائب' رہنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔

جیک ما

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ حکام سے قریبی روابط رکھنے والے ارب پتی شیاؤ جین ہوا بھی 2017 میں اچانک ہانگ کانگ سے غائب ہوگئے تھے۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ انہیں 'اغوا ' کرکے چین پہنچایا گیا تھا جہاں 2022 میں انہیں کرپشن کے الزامات میں 13 برس قید کی سزا سنائی گئی۔

صدر شی جن پنگ کے کرونا وبا کے دوران کیے گئے اقدمات پر تنقید کرنے والے رئیل اسٹیٹ کے چینی ٹائیکون رین ژیچیانگ مارچ 2020 میں منظرِ عام سے 'غائب' ہوئے، بعدازاں ان پر کرپشن کا مقدمہ چلایا گیا جس میں انہیں 18 برس کی سزا سنائی گئی۔

فن کار اور ادیب

چین کی فلم اسٹار فین بنگ بنگ 2018 میں تین ماہ تک مںظرِ عام سے غائب رہیں۔ بعدازاں ان کی کمپنی پر 13 کروڑ ڈالر ٹیکس چوری کے الزامات سامنے آئے اور انہیں رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد بھی وہ طویل عرصے تک سوشل میڈیا سے دور رہیں اور 2019 میں انہوں نے سوشل میڈیا پر چین کے قمری سال کے آغاز پر اپنے مداحوں کو مبارک باد دی۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی نے 2021 میں کئی مشہور گلوکاروں اور اداکاروں کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔ اسی دوران ارب پتی فلم اسٹار ژاؤ وی اگست 2021 میں غائب ہوئیں اور ان کے ٹی وی شوز بھی چین کے معروف کی ٹی اسٹریمنگ سے ہٹا لیے گئے۔

SEE ALSO: چین میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟

بعد ازاں ان کے گھر میں نظر بند ہونے کی تصدیق ہوئی اور رواں برس جون میں انہیں بیجنگ ایئر پورٹ پر بھی دیکھا گیا۔ تاہم کریک ڈاؤن کے دوران غائب ہونے کے بعد سے ان کا فنی سفر رک گیا۔

چینی حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں فن کار ای وی وی 2011 میں 81 دن خفیہ جیل میں قید رہے۔ اسی طرح چین کی کمیونسٹ قیادت کے بارے میں سنسنی خیز کتابیں شائع کرنے والے ہانگ کانگ کے ایک ناشر گوئی منہائی اکتوبر 2015 میں اپنے گھر سے غائب ہوگئے۔

گوئی منہائی 2016 میں چین کے سرکاری میڈیا پر سامنے آئے جس میں بظاہر ایک طے شدہ بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کے دوران ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔

اس کے بعد 2018 میں بھی گوئی کو حراست میں لیا گیا تاہم ان کی سوئیڈش شہریت کی وجہ سے یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز پر ان کی حراست کے خلاف سخت ردِ عمل سامنے آیا۔

فین بنگ بنگ

جب صدر شی خود بھی ’غائب‘ ہوگئے

ان چند معروف مثالوں کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے لاکھوں افراد مختلف ادوار میں خفیہ طور پر حکومتی تحویل میں رہے ہیں یا انہیں مںظر عام سے غائب کیا جاتا رہا ہے۔ 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد سے پارٹی نے کئی افراد کو برسوں بغیر کسی الزام کے قید میں رکھا اور بعدازاں سینٹر کمیشن نے ان کے خلاف الزامات اور سزاؤں کا اعلان کیا۔

اگرچہ چین کی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہاں ’قانون کی حکمرانی‘ ہے تاہم صدر شی کے دور میں اقتدار پر اپنی اورپارٹی کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے حکومتی اداروں کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔

تاہم کئی بار کسی حکمتِ عملی کے تحت بھی چینی قیادت خود منظر سے غائب ہوجاتی ہے۔

ستمبر 2012 میں شی جنگ پنگ چین کے نائب صدر تھے اور کچھ ہی عرصے بعد صدر بننے والے تھے۔ تاہم اس دوران اچانک وہ دو ہفتوں کے لیے منظر سے غائب ہوگئے۔

نومبر 2012 میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے چین میں طویل عرصہ گزارنے والے صحافی مارک کیٹو نے شی جن پنگ کے غائب ہونے کے بارے میں دعویٰ کیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں رہنماؤں کے دوران ہاتھا پائی شروع ہوگئی تھی۔

صحافی کیٹو کا کہنا تھا کہ انہیں ذرائع نے بتایا تھا کہ اس دوران اجلاس میں شریک لیڈرز نے ایک دوسرے پر کرسیاں بھی پھینکیں اور ان میں سے ایک کرسی شی جن پنگ کی کمر پر لگ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ ہفتے تک منظر سے غائب رہے۔

تاہم واشنگٹن پوسٹ نے واضح کیا تھا کہ اس معاملے پر صرف ایک ذریعے کی بنیاد پر اسے مصدقہ خبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

کم و بیش دو ہفتے بعد شی جن پنگ کے دوبارہ منظر پر آنے کے بعد سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ کھیل کے دوران زخمی ہوگئے تھے۔