چین نے صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اپنے دو کروڑ ساٹھ لاکھ شہریوں کے کووڈ نانٹین ٹیسٹ کے لیے فوج اورصحت کی دیکھ بھال کرنے والے ہزاروں کارکنوں کو شنگھائی بھیجا ہے۔
کچھ رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاوسنگ کمپاونڈ میں ہی ٹیسٹنگ کے لیے علی الصبح جاگ جائیں جس کے بعد بہت سے لوگ اپنے رات کے کپڑوں میں ہی قطاروں میں کھڑے ہو گئے۔
مسلح افواج کے ایک اخبار نے خبر دی ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی پی ایل اے نے اتوار کو فوج، بحریہ اور جوائنٹ لاجسٹک سپورٹ فورسز کے دو ہزار سے زیادہ طبی عملے کو شنگھائی روانہ کیا ہے۔
متعدد صوبے جیسے جیانگ سو، ژی جیانگ اور بیجنگ نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو شنگھائی بھیجا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اندازاً یہ تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔
ووہان میں کووڈ نانٹین پھوٹ پڑنے کے بعد سے جہاں دو ہزار بیس کے اوائل میں ناول کرونا وائرس سے پہلی بار نمٹا گیا تھا کے بعد سےیہ صحت عامہ کے لیے چین کا سب سے بڑا اقدام ہے۔ اسٹیٹ کونسل نے کہا ہے کہ پی ایل اے نے چار ہزار سے زیادہ طبی عملہ صوبہ ہوبے کے لیے روانہ کیا ہے جہاں ووہان واقع ہے۔
شنگھائی میں جہاں گزشتہ پیر سے دو مراحل کے لاک ڈاون کا آغاز کیا گیا تھا اس میں توسیع کردی گئی ہے تاکہ لوگ اپنے گھروں تک محدود رہیں ، تین اپریل کو آٹھ ہزار پانچ سو اکیاسی لوگوں میں کووڈ نانٹین کی علامات کے بغیر کیسز اور چار سو پچیس علامات کے ساتھ کیسز سامنے آئے۔
اتوار کو مکینوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے طور پر بھی کووڈ نانٹن کے ٹیسٹ کریں ، اگرچہ عالمی معیار کے مطابق وبا چھوٹے پیمانے پر ہے ، لیکن یہ تمام مثبت کیسز اور ان کے قریبی رابطوں کی جانچ، سراغ لگانے اور قرنطینہ کرنے پر مبنی چین کی حکمت عملی کا ایک امتحان ہے۔
اس حکمت عملی پر تناؤ پایا جاتا ہے۔شہریوں نے ہجوم اور غیر صحت بخش مرکزی قرنطینہ مراکز کی شکایت کے ساتھ ساتھ خوراک کی فراہمی اور ضروری طبی امداد کے حصول میں دشواریوں کی بھی شکایت کی ہے۔
اس کے باوجود چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ متحرک کلیئرنس کی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے جلد از جلد وبا کی رفتار کو روکا جائے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے شنگھائی بھیجے گئے نائب وزیر اعظم سن چن لن نے ہفتے کو شہری انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ وبائی امراض کو روکنے کے لیے پرعزم اور تیز رفتار اقدامات کریں۔