پشاور سے 2018 میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے، انسانی حقوق کے کارکن اور سکھ رہنما رادیش سنگھ ٹونی نے مبینہ طور دھمکیاں ملنے اور زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان چھوڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ دعویٰ انہوں نے گزشتہ روز ٹوئٹر پر کیا۔ رادیش سنگھ ٹوئٹر پر سرگرم رہتے ہیں اور ماضی میں بھی بے شمار مواقعوں پر ٹوئٹس کرتے رہے ہیں۔
وہ اپنی گزشتہ ٹوئٹ میں یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ انہیں دھمکیاں ملنے کا آغاز انتخابات میں حصہ لینے سے ہوا تھا۔
وہ مبینہ طور پر اپنے اُوپر ہونے والے حملے سے متعلق ٹوئٹ بھی کر چکے ہیں۔
رادیش سنگھ ٹونی پشاور کے رہنے والے ہیں لیکن دھمکیوں کے پیش نظر انہوں نے پشاور چھوڑ کر لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی لیکن، ان کے بقول اس کے باوجود دھمکیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا۔
رادیش سنگھ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے اپنی اور اہل خانہ کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر پاکستان چھوڑ دیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر کہاں منتقل ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کے سبب وہ اپنا پتہ نہیں بتا سکتے۔
رادیش سنگھ لاہور منتقل ہونے کے بعد بھی ٹوئٹر پر کافی سرگرم رہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لاہور میں اقلیتوں کو کرائے کے مکان کے حصول میں مشکلات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جب کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی پر بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سرگرم رہے ہیں۔
اُنہوں نے چند روز قبل ننکانہ صاحب میں گوردارے پر پتھراؤ کے بعد ایک مذہبی جماعت کے رہنما کی جانب سے بیان آںے پر ردِ عمل دیا تھا۔ جس کے بعد ان کے بقول سوشل میڈیا پر اُن کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔
رادیش کے مطابق سات دسمبر کو لاہور میں اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے کچھ موٹر سائیکل سواروں نے ان پر حملہ بھی کیا تھا جس کے بعد انہیں لاہور میں بھی عدم تحفظ کا احساس ہوا۔
رادیش سنگھ کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد تھانہ کوٹ لکھپت میں درخواست بھی دی تھی۔ لیکن تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ہم سے کہا گیا کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "دھمکیاں ملنے کے ساتھ ساتھ ہمارا ہر جگہ تعاقب بھی کیا جارہا ہے۔"
رادیش سنگھ کے مطابق ان کا خاندان محفوظ نہیں، اس لیے رشتے داروں اور دوستوں کی مدد سے وہ پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔