پاکستان فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے کہا ہے کہ "عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اندرونی عناصر اور بیرونی قوتوں کا گٹھ جوڑعوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔ عوام نے ملک کے طول و عرض میں مسلح افواج سے محبت کا اظہارکرکے دشمن کے مذموم عزائم کا منہ توڑ جواب دیا ہے"۔
پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کوئٹہ چھاؤنی کا دورہ کیا اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج 'پاکستان کے بہادر اور قابل فخر لوگوں کی مقروض ہیں، جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں مسلح افواج سے محبت کااظہارکرکے دشمن کے مذموم عزائم کا جواب دیا۔ عوام اور مسلح افواج کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوششیں کر نے والے کامیاب نہیں ہو سکیں گی'۔
SEE ALSO: نو مئی کے واقعات پر ملٹری ٹرائلز؛ 'فوج مثال قائم کرنا چاہتی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں'جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج دنیا کی سب سے مضبوط افواج میں سے ایک ہے۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں روایتی اور ففتھ جنریشن وارفیئر کے لیے آپریشنل تیاریوں پر زور دیا۔
جنرل سید عاصم منیر کے کوئٹہ پہنچنے پر کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے ان کا استقبال کیا۔ آرمی چیف نے کوئٹہ گیریژن میں فوجیوں کے لیے مختلف فلاحی اسکیموں کا بھی دورہ کیا۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کی فوج اور حکومت کی طرف سے لگاتار ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو نو مئی کو ،عمران خان کی گرفتاری کے بعد دفاعی تنصیبات پر حملوں کے لئے مورد الزام ٹہرایا گیا ہے۔ اس بارے میں عمران خان اگرچہ تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ان کے کارکن شامل نہیں بلکہ ایک سازش کے تحت بعض ایجنسیوں نے ان کی جماعت پر الزام عائد کیا ہے۔
SEE ALSO: 'معافی ان کو ملے گی جن کا جرم قابلِ معافی ہے'پاکستان فوج اور عمران خان کے درمیان پیدا ہونے والے اس تنازعہ کی وجہ سے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اورر ہنماؤں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں عمران خان کے مطابق اب تک ان کی جماعت کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کئی سابق اراکین اسمبلی، وزرا اور سینئر قائدین پارٹی اور سیاست کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ان کی پریس کانفرنسز کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
عمران خان نے حالیہ دنوں میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوسکتے ہیں۔ ان کی مذاکرات کی حالیہ پیشکش پر حکمران جماعت نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ نومئی کے حملوں پر معافی مانگے بغیر ان سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔