اُنھوں نے ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں قائم ’ٹیر میموریل اسپتال‘ میں ملالہ کے علاج کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسپتال زخمیوں کی بحالی کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے
امریکی ایوان ِنمائندگان کی رُکن شیلا جیکسن لی، جو کہ ’پاکستان کاکس‘ کی بانی اور شریک سربراہ اور ایوان میں ’بچوں کے کاکس‘ کی کو چیئر پرسن ہیں، نے کہا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں زخمی ہونے والی سوات کی 14سالہ ملالہ یوسفزئی ’پاکستان کی نئی علامت بن کر سامنے آئی ہیں‘۔
جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں اُنھوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سےپاکستان کو شدت پسندی کی طرف دھکیلا گیا ہے۔
اُنھوں نے سخت گیر خیالات رکھنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند لوگ شریعت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، اُن کے بقول، ملالہ ایک معتدل اور رواداری پر مبنی سوچ رکھنے والے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
رُکنِ کانگریس نے کہا کہ اُنھوں نےوزیر ِخارجہ ہلری کلنٹن کو ایک خط لکھا ہے جِس میں ملالہ اور اُن کے قریبی خاندان کو سیاسی پناہ دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
ساتھ ہی، شیلا جیکسن لی نے بتایا کہ اُنھوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ملالہ پر حملے کی گھناؤنی حرکت کی تفتیش کی جائے اور یہ ظلم ڈھانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ معاملہ ایک امتحان کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طالبان کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیےخاطر خواہ انتظام کرے، اور یہ کہ حکومت کو طالبان کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔
رکنِ کانگریس نے اِس بات کی تعریف کی کہ ملالہ پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی عوام نے ’ہوش مندی‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور پاکستانی فوج نے 14سالہ بچی کو زخمی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ دنوں کے دوران دنیا پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سارے پاکستانی اِس المناک واقعے کی مذمت کر چکے ہیں جب کہ سیاسی پارٹیاں، سول سوسائٹی اور ابلاغ عامہ نے ملالہ پر حملے پرمؤثر طور پر اپنی آواز بلند کی ہے۔
ملالہ اِس وقت برمنگھم کی کوئین الزبیتھ اسپتال میں زیر علاج ہے۔ سوات کے واقعے میں دو دیگر بچیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔
شیلا جیکسن لی کے الفاظ میں: ’جِن بزدلوں نے ملالہ اور اُن کی ہم جماعت دیگر بچیوں کو زخمی کیا ہے، اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حملہ آوروں کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و توقیر نہیں، اور وہ اپنی ظالمانہ سوچ کو، جو مسخ شدہ نظریے پر مبنی ہے، آگے بڑھانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘
اُنھوں نے ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں قائم ’ٹیر میموریل اسپتال‘ میں ملالہ کے علاج کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسپتال زخمیوں کی بحالی کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔
کانگریس وومین شیلا جیسکن لی نے کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد ملالہ کی سوچ کی حامی ہے، اِس لیے ، اُن کے بقول، طالبان کی طرف سے اُنھیں خاموش کرنے کی کوشش کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔
ملالہ کو 2011ء میں ’قومی امن ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا اور وہ طالبان کےمظالم کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا بلاگ لکھا کرتی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی ’ہم سب کا مشترک مقصد ہے‘۔
جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں اُنھوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سےپاکستان کو شدت پسندی کی طرف دھکیلا گیا ہے۔
اُنھوں نے سخت گیر خیالات رکھنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند لوگ شریعت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، اُن کے بقول، ملالہ ایک معتدل اور رواداری پر مبنی سوچ رکھنے والے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
رُکنِ کانگریس نے کہا کہ اُنھوں نےوزیر ِخارجہ ہلری کلنٹن کو ایک خط لکھا ہے جِس میں ملالہ اور اُن کے قریبی خاندان کو سیاسی پناہ دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
ساتھ ہی، شیلا جیکسن لی نے بتایا کہ اُنھوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ملالہ پر حملے کی گھناؤنی حرکت کی تفتیش کی جائے اور یہ ظلم ڈھانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ معاملہ ایک امتحان کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طالبان کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیےخاطر خواہ انتظام کرے، اور یہ کہ حکومت کو طالبان کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔
رکنِ کانگریس نے اِس بات کی تعریف کی کہ ملالہ پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی عوام نے ’ہوش مندی‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور پاکستانی فوج نے 14سالہ بچی کو زخمی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ دنوں کے دوران دنیا پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سارے پاکستانی اِس المناک واقعے کی مذمت کر چکے ہیں جب کہ سیاسی پارٹیاں، سول سوسائٹی اور ابلاغ عامہ نے ملالہ پر حملے پرمؤثر طور پر اپنی آواز بلند کی ہے۔
ملالہ اِس وقت برمنگھم کی کوئین الزبیتھ اسپتال میں زیر علاج ہے۔ سوات کے واقعے میں دو دیگر بچیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔
شیلا جیکسن لی کے الفاظ میں: ’جِن بزدلوں نے ملالہ اور اُن کی ہم جماعت دیگر بچیوں کو زخمی کیا ہے، اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حملہ آوروں کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و توقیر نہیں، اور وہ اپنی ظالمانہ سوچ کو، جو مسخ شدہ نظریے پر مبنی ہے، آگے بڑھانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘
اُنھوں نے ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں قائم ’ٹیر میموریل اسپتال‘ میں ملالہ کے علاج کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسپتال زخمیوں کی بحالی کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔
کانگریس وومین شیلا جیسکن لی نے کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد ملالہ کی سوچ کی حامی ہے، اِس لیے ، اُن کے بقول، طالبان کی طرف سے اُنھیں خاموش کرنے کی کوشش کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔
ملالہ کو 2011ء میں ’قومی امن ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا اور وہ طالبان کےمظالم کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا بلاگ لکھا کرتی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی ’ہم سب کا مشترک مقصد ہے‘۔