پاکستان تحریکِ انصاف نے جمعرات کو لاہور کے گورنر ہاؤس کے باہر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق سابق وزیرِ اعظم عمران خان اس موقع پر کارکنوں سے خطاب کریں گے۔
بدھ کو زمان پارک کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما تحریکِ انصاف حماد اظہر نے کہا کہ گورنر پنجاب کو اُن کے بقول غیر آئینی اقدامات کی اجازت نہیں جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ جمعرات کی شام پانچ بجے گورنر ہاؤس کے باہر جمع ہو کر گورنر کے 'غیر آئینی اقدامات' کا راستہ روکیں۔
خیال رہے کہ گورنر پنجاب نے وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے بدھ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا، تاہم اس حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اجلاس طلب نہیں کیا تھا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے بدھ کی شام چار بجے تک اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لہذٰا اب وہ وزیرِ اعلٰی پنجاب نہیں رہیں گے۔
نجی نیوز چینل 'جیو ںیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نیا ڈیکلیریشن جاری کریں گے جس کے بعد چوہدری پرویز الہٰی اپنے منصب پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ گورنر پنجاب وزیرِ اعظم کو پنجاب میں گورنر راج لگانے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے رہنما تحریکِ انصاف فرخ حبیب نے ٹوئٹ کی کہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے نمبر پورے نہ ہونے پر رانا ثناء غیر آئینی اقدامات کی دھمکیاں لگا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کسی غیر آئینی اقدام کو تسلیم کریں گی اس سے ملک میں مزید عدم استحکام ہو گا۔
خیال رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی کو بدھ کی شام چار بجے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے خصوصی طور پر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ہدایت بھی کی تھی جسے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے غیر قانونی اور آئین کی شقوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
گورنر پنجاب نے اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کرتے ہوئے 19 دسمبر کو وزیرِ اعلیٰ کو ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے خط لکھا تھا جب کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کہتے ہیں کہ اسمبلی کا رواں اجلاس 23 اکتوبر سے جاری ہے اس لیے جب تک یہ اجلاس ختم نہیں ہو جاتا اس وقت تک کوئی نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔
گورنر پنجاب کے خط کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے دوران سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
وزیرِ اعلی چوہدری پرویزالٰہی نے مسلم لیگ (ق)کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج طلب کر لیا ہے۔ اجلاس وزیر اعلی آفس میں ہو گا جس میں آئندہ کی حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پنجاب کی سیاست میں کا موجودہ بحران ایک مرتبہ پھر عدالت میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
SEE ALSO: پرویز الہٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پنجاب میں جوڑ توڑ اور رابطےپنجاب اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایوان میں 186 اراکین کی حمایت حاصل کریں۔ اسی طرح اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھی وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ایوان میں 186 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال کے باعث پاکستان مسلم لیگ ن اور اِس کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی ایک طرف جب کہ پاکستان تحریک انصاف دوسری جانب ہے۔ فریقین اپنے اپنے سیاسی مؤقف پر قائم ہیں جس سے صوبے میں نیا آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایسے وقت میں جمع کرائی گئی ہے جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرے گی؟ وزیرِ اعلٰی پنجاب کی جانب سے عمران خان کے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف بیانات کی کھل کر مخالفت کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا چوہدری پرویز الہٰی ایک بار پھر پی ڈی ایم کے قریب ہو رہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پنجاب میں اقتدار کے ایوانوں میں گونج رہے ہیں جب کہ عوامی حلقوں میں بھی یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔