پاکستان کے صوبہ سندھ میں کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگایا گیا لاک ڈاؤن پیر کو ختم کر دیا گیا جس کے بعد صوبے بھر میں بیشتر کاروبار، سرکاری و نجی دفاتر اور دیگر مراکز کھل گئے جب کہ ٹریفک کا رش بھی معمول کے مطابق دیکھا گیا۔
سندھ حکومت نے نئے نوٹی فکیشن کے تحت31 اگست تک کاروباری اوقات کو رات آٹھ بجے تک محدود کرنے کے ساتھ جمعے اور اتوار کو تمام مارکیٹیں، کاروباری اور تجارتی مرکز بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح ہوٹلز اور ریستورانوں میں ان ڈور ڈائننگ پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے جب کہ آوٹ ڈور ڈائننگ اور شادیوں میں بھی 300 سے زیادہ مہمانوں کو بلانے پر پابندی عائد رہے گی۔ تاہم ٹیک اوے اور ہوم ڈلیوری کی اجازت 24 گھنٹے ہو گی۔
نوٹی فکیشن کے مطابق مزارات، درگاہیں، امیوزمنٹ پارکس، واٹر پارکس، سوئمنگ پولز اور سنیما گھر بند ہی رہیں گے۔ ان ڈور جمز میں صرف ویکسی نیشن کی صورت میں داخلے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح صوبے بھر میں جامعات، کالجز اور اسکولوں کی چھٹیاں 19 اگست تک بڑھا دی گئی ہیں تاہم اس دوران انٹر میڈیٹ کے امتحانات کا سلسلہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ پاکستان میں کرونا سے سب زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں اب تک چار لاکھ سے زائد افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔ ادھر صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں کرونا کے مثبت کیسز کی شرح میں معمولی کمی دیکھی گئی ہے اور ایک ہفتے میں مثبت کیسز کی شرح 13 فی صد سے کم ہو کر اوسطً 11.86 فی صد ہو گئی ہے۔
یکم اگست سے سات اگست کے اعدادوشمار کے مطابق اب بھی سب سے زیادہ کیسز صوبائی دارالحکومت کراچی میں ہی رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں اس کا تناسب 21 فی صد سے بھی زائد رہا۔ اسی طرح حیدر آباد میں مثبت شرح 14.40 اور باقی صوبے میں 4.80 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث کرونا کیسز میں کمی آئی ہے اور اتوار کو صوبے میں مثبت کیسز کی شرح کم ہوکر 9.4 فی صد تک ہو چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان عدم اتفاق رائے؟
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے صوبے میں لاک ڈاؤن کے باوجود کرونا کیسز میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی کرونا ٹاسک فورس کی جانب سے صوبے میں نو روز کے لیے مکمل لاک ڈاؤن اور اس دوران ویکسی نیشن تیز کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک کو ماڈل بنا کر یہ دیکھا گیا تھا کہ اگر مکمل لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے تو کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے لیکن صوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران بھی کئی کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں جن میں بندرگاہ اور اسٹاک مارکیٹس بھی شامل ہیں ۔
دوسری جانب وفاقی سرکاری اداروں میں بھی کام جاری رہا، نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دفاتر میں لوگوں کا رش رہا جب کہ ویکسین لگانے کے لیے آنے والے افراد کے لیے بھی خاطر خواہ انتظام نہ کرنے کی وجہ سے ویکسی نیشن سینٹرز میں مختلف مقامات پر سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھا گیا۔
اسی طرح شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ اور بین الصوبائی انٹر بس ٹرانسپورٹ بھی چلتی رہی۔
ملک میں چوتھی لہر کے اثرات برقرار
دوسری جانب پاکستان بھر میں کرونا کی چوتھی لہر کا پھیلاؤ مسلسل جاری ہے اور پیر کو سامنے آنے والے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں کرونا کے 83 ہزار سے زائد فعال کیسز ہیں۔
پیر کو سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وبا سے 53 افراد ہلاک اور مزید چار ہزار 40 افراد میں کرونا کی علامات پائی گئیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 7.54 فی صد رہی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں اب تک 10 لاکھ 71 ہزار افراد کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔