پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیمیں حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر آزادیٔ اظہار پر لگائی جانے والی قدغنوں کی مذمت کرتی آئی ہیں۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ایسی قدغنیں حکومت اور اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کا مؤجب بنتی ہیں جب کہ یہ پابندیاں عالمی سطح پر پاکستان کا منفی تاثر بھی اُبھارتی ہیں۔
آزادیٔ اظہار اور پاکستان میں قانون کی بالادستی سے متعلق عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کی جانب سے لاہور میں گزشتہ اختتامِ ہفتہ دو روزہ فکری نشست کا انعقاد کیا گیا۔
اس نشست سے موجودہ و سابق ججز، وکلا رہنما، سیاست دانوں، صحافیوں اور دیگر شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خطابات کیے۔
اس کانفرنس سے اتوار کو پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا تھا لیکن ان کے خطاب سے کچھ دیر قبل مبینہ طور پر انٹرنیٹ کنکش منقطع ہو گیا جس کے باعث نواز شریف کو بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرنا پڑا۔
خیال رہے عدالت نے نواز شریف کو مفرور قرار دے رکھا ہے جب کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے ایک مفرور شخص کی حیثیت سے انہیں ذرائع ابلاغ پر دکھانے اور اخبارات میں ان کے بیانات چھاپنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے منتظمین بتاتے ہیں کہ نواز شریف کی تقریر روکنے یا اسے نشر نہ کرنے کے حوالے سے اُنہیں پیشگی نہیں بتایا گیا۔
SEE ALSO: عاصمہ جہانگیر کانفرنس: فواد چوہدری کی شرکت سے معذرتکانفرنس کی منتظمین میں سے ایک رکن منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ اس کانفرنس میں صرف 'عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل' ہی منتظمین میں شامل نہیں بلکہ اِس میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر کی مدد سے اس کانفرنس کا سالانہ انعقاد کیا جاتا ہے۔
منیزے جہانگیر کے بقول آزادی اظہارِ رائے ہر پاکستانی کا قانونی اور آئینی حق ہے اور 'عاصمہ جہانگیر کانفرنس' ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں غیر سیاسی بنیاد پر انسانی حقوق پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف کی تقریر میں رکاوٹیں نہ ڈالی جاتیں تو اس تقریر میں لوگوں کی اتنی دلچسپی پیدا نہ ہوتی۔ لیکن اُس تقریر کو روک کر اُن لوگوں کی بھی دلچسپی بڑھائی گئی جو شاید نواز شریف کی تقریر سننے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں بہت محتاط رویہ اختیار کیا۔ اُنہوں نے کوئی ایسی تقریر نہیں کی جس سے یوں لگے کہ وہ کسی ادارے کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
SEE ALSO: ثاقب نثار پر نواز شریف کی ضمانت روکنے کا الزام، اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوٹسسینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی تقریر روکے جانے کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ وہ اِس وقت مفرور مجرم بھی ہیں، مطلوب بھی اور اشتہاری بھی ہیں جس کے بعد کوئی ایسی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ انہیں ایک پلیٹ فام دیا جائے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں حکومتِ پنجاب کے ترجمان حسان خاور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کئی بار رابطے کے باوجود وہ دستیاب نہ ہو سکے۔
'مجرم کی تقریر روکنا پیمرا قوانین کے مطابق ہے'
اتوار کو ہی وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں انہیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے نواز شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ جب انہیں علم ہوا کہ کانفرنس سے کا اختتام ایک مفرور ملزم کی تقریر سے ہو گا تو انہوں نے شرکت سے معذرت کر لی۔
صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر کہتے ہیں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ نواز شریف کی تقریر کو کسی ریاستی ادارے نے روکا تو اُنہیں چاہیے کہ وہ عدالت سے رجوع کریں سب پتا چل جائے گا۔
صابر شاکر کے مطابق کچھ ایسے میڈیا ہاؤسز بھی موجود ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں۔ اُن سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے نواز شریف کی تقریر کیوں نہیں دکھائی۔
صابر شاکر سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملزم یا مجرم کی تقریر روکنا پیمرا قوانین کے مطابق ہے۔ ایسا مغربی ممالک میں بھی ہوتا ہے۔