گیارہ ستمبر دوہزار ایک کو نیویارک اور پینٹاگان پر القاعدہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کردنیا بھر میں دہشت گردوں کا پیچھا کرکے ان کی طاقت کچلنے اور اقوام عالم کو مستقبل میں ایسے کسی حملے سے محفوظ رکھنے کے ایک بڑے منصوبے پرعمل کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں افغانستان میں القاعدہ کی میزبانی کرنے والے طالبان کے اقتدار کاخاتمہ اور عراق سے صدام حسین کی رخصتی عمل میں آئی۔ لیکن نائین الیون کے دس سال بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ابھی جاری ہے اور پاکستان اور افغانستان سمیت کئی ممالک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں جہاں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے وہاں دنیا کو بڑے پیمانے پر اقتصادی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑے۔
ڈیجٹل ہسٹری کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں 68 لاکھ فوجی میدان جنگ میں ہلاک ہوئے جب کہ 30 لاکھ سے زیادہ جنگی حادثات، بیماری ، اور قید کی حالت میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس جنگ نے 65 لاکھ سے زیاد ہ عام شہریوں کو بھی نگل لیا۔جب کہ اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب80 ارب ڈالر سے زیادہ رہے۔
دوسری عالمی جنگ اس سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی جس میں دوکروڑ 40 لاکھ سے زیادہ فوجیوں اور تقریباً پانچ کروڑ عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور اس جنگ پر ساڑھے تین کھرب ڈالر سے زیادہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے۔
ماضی کی ان بڑی جنگوں کے نقصانات کے باوجود دنیا آج بھی عراق , افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں جنگوں میں مصروف ہے۔ معید یوسف ، یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مفادات کی جنگ ہے۔جب بھی کسی کے مفاد پر زد پڑتی ہے، جنگ کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ امن طاقت سےحاصل نہیں کیا جاسکتاہے، یہ صرف افہام و تفہم سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ آج کی دنیا ماضی کے مقابلے میں کم شدت پسند ہے اور مجموعی طورپر یورپ اور مشرقی ایشیائی طاقتوں نے جنگ سے اجتناب کا راستہ چن لیا ہے۔
11ستمبر 2001 میں القاعدہ کی جانب سے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن کے مضافات میں پینٹاگان پر حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق اور افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ جنگ جزوی طورپر پاکستان کی مدد سے پاک افغان سرحد کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں بھی لڑی جارہی ہے۔
مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ پچھلے دس برسوں کے مقابلے میں آج دنیا زیادہ محفوظ ہے۔ مسلمانوں نے زیادہ تر القاعدہ کو مسترد کردیا ہے اور وہ بہت کمزور ہوچکی ہے۔ لیکن اس جنگ کی پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے اور وہاں دس سال پہلے کے مقابلے میں بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی زیادہ ہے۔
گذشتہ ایک عشرے سےدہشت گردی کے خلاف جاری ان جنگوں میں نیٹو سے منسلک 28 اور 13 دوسرے ممالک دنیا بھر میں لگ بھگ 21 دہشت گرد تنظیموں کے خلاف صف آراء ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق ان جنگوں میں اب تک امریکہ کے 6051ء اس کے اتحادی ممالک کے 1192 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جب کہ عراق کے 9922، افغانستان کے 8756 اور پاکستان کے 3520 سے زیادہ فوجی بھی ان جنگوں کا لقمہ بن چکے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف دس برس سے جاری اس جنگ میں فوجی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 74 ہزار سے زیادہ ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جب کہ پونے دو لاکھ عام شہری بھی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانیوں کے نتیجے میں اب تک صرف 89850 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکاہے۔
اس جنگ نے تقریباً 57 لاکھ افراد کو پناہ گزین بننے پر مجبور کیا ہے۔
واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق عراق، افغانستان اور پاکستان میں جاری فوجی کارروائیوں پر اب تک پونے چار کھرب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فوجی معذور بھی ہوئے ہیں۔ 30 ستمبر 2010ءتک کے اعداد و شمار کے مطابق 5،52،215 سابق امریکی فوجیوں نے ٕمعذوری کی مراعات حاصل کرنے کے لیے اپنے نام درج کرائے تھے اور طبی اورمعذوری کے سبب ان علاج و معالجے پر 32 ارب ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں۔
ان لڑائیوں کے متاثر ہونے والی ایک بڑی آبادی ان عام لوگوں پر مشتمل ہے، جو ان جنگوں کی وجہ سے خوراک کی عدم دستیابی، ذہنی امراض اور دوسری بیماریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان جنگوں نے کئی بچوں کو یتیم، کئی عورتوں کو بیوہ اور کئی ماؤں سے ان کے اولاد چھینی۔ اور کئی خاندان آج بھی لاپتا ہونے والے اپنے پیاروں کے منتظر ہیں۔
واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ ہر سال ان جنگوں پر 130 ارب ڈالرز خرچ کررہا ہے جو معاشرتی فلاح و بہبود کے شعبوں میں خرچ ہو سکتے ہیں اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔