'مودی' کی ہتک کے مقدے میں راہل گاندھی کی اپیل خارج

گجرات ہائی کورٹ نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہتک کے ایک معاملے میں سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کی دو سال کی سزا معطل کرنے کی درخواست خارج کر دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس کا کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ نچلی عدالت نے سزا کو معطل نہ کرنے کا جوفیصلہ سنایا تھا وہ قانون کے مطابق ہے اورسزا کو تعطل میں نہ ڈالنا ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی کے خلاف دس مقدمات دیگر عدالتوں میں زیر التوا ہیں جن میں سے ایک مقدمہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنما وی ڈی ساورکر کے پوتے نے درج کرا رکھا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق اگر ہائی کورٹ نے ان کی سزا کو معطل کر دیا ہوتا تو ان کی لوک سبھا کی رکنیت بحال ہو جاتی۔ تاہم ان کو جیل نہیں جانا ہوگا کیوں کہ ایک عدالت نے سزا پر عمل درآمد پر روک لگا رکھی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق یہ فیصلہ کانگریس کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے کیوں کہ اس نے 2024 کے عام انتخابات کے پیش نظر ان کے متعدد پروگراموں کا خاکہ تیار کر رکھا تھا۔ اب راہل گاندھی کے پاس فیصلے کو صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا آپشن بچا ہے۔

کانگریس نے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پارٹی فیصلے کا مطالعہ کرے گی اور آگے کی حکمتِ عملی طے کرے گی۔ ان کے مطابق اس فیصلے نے اس معاملے میں ہمارے عزم کو بڑھا کر دگنا کر دیا ہے۔

کانگریس کے قومی ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ فیصلہ غلط ہے، یہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ پارٹی جلد ہی اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

اُنہوں نے عدالت کی جانب سے راہل گاندھی کے خلاف 10 مقدمات کے حوالے پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا حوالہ غلط ہے۔ ان میں سے کسی میں بھی راہل گاندھی کو سزا نہیں سنائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ تمام مقدمات بی جے پی کے کارکنوں اور عہدے داروں کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی بار بار کہتی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہتک ہوئی ہے تو پھر نریندر مودی خود کیوں نہیں عدالت میں شکایت کرتے۔ ان کے بقول مبینہ توہین کسی اور کی ہوئی اور مقدمہ کسی اور نے قائم کیا۔

کرناٹک کے وزیر اعلی سدھا رمیا اور نائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیو کمار نے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نہیں چاہتی کہ راہل گاندھی پارلیمنٹ میں جائیں۔ ڈی کے شیو کمار کے مطابق اس معاملے میں انصاف نہیں ہوا ہے۔ یہ افسوسناک ہے اور جمہوریت کا قتل ہے۔ پورا ملک اور اپوزیشن جماعتیں راہل گاندھی کے ساتھ ہیں۔

بی جے پی نے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ پارٹی کے قومی ترجمان شہزاد پونہ والا نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سچ کی جیت ہوئی ہے۔ سیشن کورٹ کے بعد ہائی کورٹ نے راہل گاندھی کی درخواست خارج کر دی۔ ان کے بقول راہل گاندھی کو لوگوں کی توہین کرنے کی عادت۔ انھوں نے پسماندہ سماج سے معافی نہیں مانگی بلکہ کانگریس اس پر ڈھٹائی سے قائم رہی۔


سینئر بی جے پی رہنما اور سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ راہل گاندھی دوسروں کی ہتک کرتے رہتے ہیں اور معافی مانگنے کے بجائے غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ راہل گاندھی نے 13 اپریل 2019 کو کرناٹک کے کولار میں ایک انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ’کیوں تمام چوروں کے نام میں لفظ مودی لگا ہوا ہے۔ نیرو مودی، للت مودی اور نریندر مودی‘۔

ان کے اس بیان پر گجرات کے ایک سابق وزیر پرنیش مودی نے سورت کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا اور کہا تھا کہ راہل کے اس بیان سے مودی برادری کی جو کہ ایک پسماندہ برادری ہے، توہین ہوئی ہے۔

مجسٹریٹ نے رواں سال کے 23 مارچ کو اس معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے راہل گاندھی کو قصوروار قرار دیا اور انہیں دو سال کی سزا سنائی جو کہ ایسے معاملات میں سب سے زیادہ سزا ہے۔

عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے مطابق اگر کسی شخص کے خلاف ایسے معاملات میں دو سال کی سزا سنائی جاتی ہے تو وہ شخص پارلیمان اور اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جاتا ہے اور دو سال کی سزا کاٹنے کے بعد چھ سال تک الیکشن لڑنے کا نااہل ہو جاتا ہے۔

لوک سبھا سیکریٹریٹ نے فیصلے کے پیشِ نظر 24 مارچ کو ان کی رکنیت منسوخ کر دی جب کہ ہاؤسنگ محکمے نے ان کا سرکاری بنگلہ ان سے خالی کرا لیا۔

راہل گاندھی نے نچلی عدالت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جس نے 20 اپریل کو ان کی درخواست مسترد کر دی اور سزا کو برقرار رکھا۔ اس کے بعد انہوں نے گجرات ہائی کورٹ میں اپیل کی جسے کورٹ نے سات جولائی کو خارج کر دیا۔

سپریم کورٹ کے وکیل راکیش کمار سنہا کے مطابق یہ فیصلہ سزا کو معطل کرنے کی درخواست پر سنایا گیا ہے۔ جب کہ سزا کو منسوخ کرنے کی درخواست عدالت میں زیر التوا ہے۔ ان کے خیال میں عدالت کی جانب سے راہل کے خلاف دس مقدمات کے درج ہونے کی دلیل دینا ناقابل فہم ہے۔ عدالت کو اس معاملے میں میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہتک عزت کے کسی بھی معاملے میں اتنی سزا نہیں سنائی گئی۔ عدالتیں ایسے معاملات میں وراننگ دے کر معاملہ ختم کر دیتی ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ ہتک عزت کے معاملے میں سب سے زیادہ دو سال کی سزا سنائی گئی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف اس فیصلے سے کانگریس کو سیاسی نقصان نہیں ہوگا۔ کیوں کہ وہ عوام میں جا کر کہے گی کہ چونکہ راہل گاندھی گوتم اڈانی اور نریند رمودی کے رشتے کے بارے میں سوال کرتے رہے ہیں اس لیے عدالت کا سہارا لے کر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ تاکہ کوئی دوسرا بھی یہ سوال نہ کر سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے کہا کہ کانگریس اس معاملے میں حکومت کو گھیرنے اور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے گی کہ حکومت راہل گاندھی سے انتقام لے رہی ہے۔

ان کے خیال میں کانگریس پہلے بھی عوام کو یاد دلانے کی کوشش کرتی رہی ہے او راب ایک با رپھر کرے گی اور کہے گی کہ انتقامی جذبے کے تحت ہی راہل گاندھی کی رکنیت ختم کی گئی اور ان کا سرکاری بنگلہ چھین لیا گیا۔

کانگریس سے نکلنے والے سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کی رکنیت ختم ہوئے کئی ماہ ہو چکے ہیں لیکن ان سے ان کا سرکاری بنگلہ ابھی تک خالی نہیں کروایا گیا۔

دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس جہاں اس معاملے میں بی جے پی اور حکومت کے خلاف بیانات دے گی وہیں بی جے پی اور حکومت کی جانب سے کہا جائے گا کہ یہ فیصلہ عدالت نے سنایا ہے جس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ان کے بقول اس معاملے پر سیاسی ماحول ایک بار پھر گرم ہونے والا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں 2024 کے عام انتخابات سے قبل حتمی فیصلہ سنائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ ابھی راہل گاندھی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی اور عدالتوں میں معاملات کافی عرصے تک زیر التوا رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ ہتک عزت کا قانون انگریزی دور حکومت میں 1837 میں وضع کیا گیا تھا اور یہ پہلا موقع ہے جب اس کے تحت کسی کو دو سال کی سزا سنائی گئی ہے۔