امریکہ میں ایک بار پھر کرونا کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ماہرین اس اضافے کو وائرس کی نئی لہر کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں دو ماہ تک کیسز میں مسلسل کمی کے بعد اب اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے وابستہ متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر اسٹیورٹ کیمبل کا کہنا ہے کہ "ہم نہیں جانتے کہ وائرس کی نئی لہر کتنی بڑی ہو سکتی ہے۔"
امریکہ میں جب کرونا کے امیکرون ویریئنٹ کے کیسز سامنے آئے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس سے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ تاہم اس وائرس کے بعد امریکہ میں کرونا کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسپتالوں پر بھی بوجھ بڑھ گیا تھا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وبا کی متوقع لہر جو کہ ‘بی اے ٹو’ نامی وائرس کی قسم کی وجہ سے پھیل رہی ہے، 30 فی صد زیادہ مہلک ہو سکتی ہے اور پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اسپتالوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جو پہلے ہی امریکہ کے شمال مشرقی حصوں میں بڑھ رہی ہے اور آنے والے ہفتوں میں دیگر ریاستوں میں بھی بڑھ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ اومیکرون ویریئنٹ کی تشخیص کے وقت رپورٹ کیے جانے والے کیسوں کی یومیہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں ہفتے جمعرات تک ایک ہفتے کے اوسط رپورٹ کیے جانے والے کیسز کی تعداد 39 ہزار 521 تک جا پہنچی تھی۔ جب کہ دو ہفتے قبل یہ تعداد 30 ہزار 724 تھی۔
سکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر ایرک توپول کا کہنا ہے کہ کرونا کیسز میں اضافہ اس وقت تک متوقع ہے جب تک یہ تعداد پچھلی بار آنے والے عروج کے ایک چوتھائی تک نہ پہنچ جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بی اے ٹو بتدریج ملک میں پھیلے گا جب کہ شمال مشرقی علاقے اب تک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جہاں سے پچھلے ہفتے رپورٹ کیے جانے والے کیسز میں سے 90 فی صد نئے انفیکشن کے کیسز ہیں۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مثبت کیسز کی شرح میں اضافے کے سبب بعض کلاسز آن لائن لی جا رہی ہیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)