کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے اور اس میں کمی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے ترقی یافتہ ممالک جہاں تمام جدید سہولتیں موجود ہیں، وہ بھی اس سے مثتثنٰی نہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس وائرس کے علاج کا کوئی مؤثر طریقہ دریافت نہیں کیا جا سکا۔ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بائیس ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے علاج کے لیے توجہ مخصوص دواؤں پر نہیں بلکہ بعض ایسی دواؤں کا تجربہ کیا جا رہا ہے جو دوسری بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
کرونا وائرس کے نئے جرثومے کو 'کوویڈ 19' کا نام دیا گیا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک اندازے کے مطابق دو فی صد آبادی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ خاص کر عمر رسیدہ یا ایسے افراد کے لیے جو پہلے ہی سے کسی عارضے میں مبتلا ہیں۔ مثلا ایسے لوگ جنھیں ذیابطیس یا ہائی بلڈ پریشر یا دل کے امراض لاحق ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار برائن پیڈن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ چھوت سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہرین پرامید ہیں کہ کرونا وائرس کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیاری ممکن ہے۔ تاہم اس پر تجربے اور عالمی سطح پر اس کی دستیابی کو آسان بنانے میں ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
فی الوقت اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی دوا یا دوائیں مخصوص نہیں، لیکن مختلف نوعیت کی ادویات آزمائی جا رہی ہیں جن کے تین مقاصد ہیں۔
اول یہ کہ وائرس کو از خود محدود کر دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اس کی بعض ایسی علامات پر قابو پا لیا جائے جن سے جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ مریض کی قوت مدافعت میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ انفیکشن کا مقابلہ کر سکے۔
اس سلسلے میں ملیریا کے علاج کے لئے عرصے سے استعمال کی جانے والی دوائیں کلورو کوئین اور ہائیڈروکسی کلوروکوئین کا متعدد ملکوں میں جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ انفیکشن کی ابتدا ہی میں وائرس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دواؤں کا خاص طور پر حوالہ دیا تھا تاہم سائنس دان خبردار کرتے ہیں کہ مطلوبہ نتائج کے لئے مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔
ملیریا کی ان دواؤں کا فرانس اور چین میں چھوٹے پیمانے پر تجربہ کیا گیا ہے جس کے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر مطالعاتی تجزیہ ابھی جاری ہے۔ ماہرین ان دواؤں کے مریضوں پر سنگین نوعیت کے ثانوی اثرات کی جانب بھی توجہ دلا رہے ہیں۔
امریکہ میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر حنا ایکسل رواڈ کے مطابق ہمارے علم میں ہے کہ بہت سے ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں لوگوں نے یہ سمجھا کہ ان دواوں سے وہ کرونا وائرس سے بچ جائیں گے لیکن المیہ یہ کہ اس کا نتیجہ گویا زہرخورانی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسی طرح ایک اور دوا ریمبے سیویر کا تجربہ بھی کیا گیا ہے لیکن بڑے پیمانے پر اس کی آزمائش درکار ہے۔ سوجن کو کم کرنے والی دوا کیوزارا بھی ان دواؤں میں شامل ہے جن کا کرونا وائرس کے مریضوں پر تجربہ کیا جا رہا ہے۔
امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس ہفتے ایک پلازمہ تھراپی کی بھی منظوری دی ہے جو کرونا وائرس سے شدید طور پر متاثر ہونے والے مریضوں کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔
حیاتیاتی سائنس سے متعلق ایک ویب سائٹ کے مطابق تقریباً ستر ایسی دواؤں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی مدد سے کرونا وائرس سے بچاؤ یا اس کا علاج کیا جا سکتا ہے، تاہم طبی ماہرین ابھی اس بات کی پیش گوئی نہیں کر پا رہے کہ کرونا وائرس کے علاج کے معاملے میں قطعی نتائج کب سامنے آ سکیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں کم از کم مہینوں لگ سکتے ہیں۔ اس وقت تک یہ عالمی وبا کیا شکل اختیار کرے گی اور خوف و دہشت کے سائے کب تک انسانوں کا پیچھا کرتے رہیں گے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔