چین کے نائب وزیرِ اعظم ہی لی فنگ تین روزہ دورۂ پاکستان پر اسلام آباد میں ہیں۔
چینی نائب وزیرِ اعظم چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے 10 برس مکمل ہونے پر مختلف تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں۔
اگرچہ سی پیک کے تحت پاکستان میں بنیادی ڈھانچے، شاہراہوں کی تعمیر اور توانا ئی کے کئی منصوبے مکمل ہوئے ہیں لیکن اس کے دوسرے مرحلے میں اقتصادی زونز کے قیام کی جا نب پیش رفت ہونا باقی ہے۔
سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر حال ہی میں پاکستان اور چین نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا جس میں کئی چینی عہدے داروں اور چینی سرمایہ کار کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ 2013 میں شروع ہونے والے سی پیک کے سفر میں بہت نشیب و فراز آئے لیکن ان کے بقول اب حکومت اس کے تحت منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔
سی پیک کے آغاز پر اسے پاکستان کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔بعض مبصرین کی رائے میں سی پیک سے متعلق پاکستانی عوام میں یہ تاثر پیدا ہو گیاتھا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل کر دےگا لیکن یہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔
مئی 2013 میں چین کے وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے دورۂ پاکستان کے دوران پاکستانی قیادت کو دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر اقتصادی شراکت داری کی دعوت دی تھی جسے بعد میں سی پیک کا نام دیا گیا۔ جولائی 2013 میں پاکستان اور چین نے اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیےتھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سی پیک چین کے وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے اور اس منصوبے کے تحت اب تک پاکستان میں 25 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری سے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان منصوبوں کی وجہ سے پاکستان میں دو لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ 75 سال کے دوران جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے سیاسی و سفارتی تعلقات رہے ہیں ان میں سی پیک جیسی اقتصادی شراکت داری کسی بھی ملک کے ساتھ نہیں ہوئی ۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک شروع ہونے سے پہلے 2013 میں پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا تھا اور کئی کئی گھنٹوں تک بجلی بند ہونے کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا تھا بلکہ معاشی اور صنعتی سرگرمیاں بھی مفلوج ہو گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی توانائی کی کمی دور ہو ئی بلکہ بنیادی ڈھانچے اور شاہراہوں کی تعمیر سے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں واقع گودار بندرگاہ اور مغربی چین کے علاقوں کے درمیان زمینی رابطہ بھی قائم ہو گیا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں سی پیک منصوبوں میں پیش ر فت نہیں ہوئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
’توقعات پوری نہیں ہوئیں‘
ہارون شریف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بعض رہنماؤں نے سی پیک کو ’گیم چینجر‘ قرار دیا جس کی وجہ سے پاکستان کےعوام میں توقعات پیدا ہو گئیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل ثابت ہو گا۔
یادر ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں 2013 میں شروع ہونے والے توانائی اور بنیادی انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کو 2020 تک مکمل ہونا تھا جس کے بعد دوسرے مرحلے میں 2020 سے 2025 کے درمیان پاکستان میں نو اقتصادی اور صنعتی زون قائم ہونے تھے جہاں چینی سرمایہ کار کمپنیوں نے سرمایہ کار ی کرنا تھی۔ لیکن یہ صنعتی زون تعمیر نہیں ہو سکے۔ پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال صنعتی زون بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سابق حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
تاہم ہارون شریف کہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں سب سے بڑی چیز جس نے سی پیک کو سست روی کا شکار کیا و ہ کرونا وائرس کی وبا تھی۔
ان کے مطابق چین نے اپنی سرحدیں بند کر دیں اور اسی وجہ سے سی پیک کے منصوبوں پر بھی اثر پڑا۔ دوسری جانب ان کے بقول پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے فیصلہ سازی متاثر ہوئی اور یہ صورتِ تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
سابق حکومت کے دور میں سی پیک اتھارٹی قائم کی گئی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اسے بند کر دیا جس کی وجہ سے ہارون شریف کے خیال میں چین کو اچھا پیغام نہیں گیا۔
'سی پیک کی سست روی کا چین ذمہ دار نہیں'
ہارون شریف کہتے ہیں کہ اس میں چین کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ پاکستان کی معیشت پر کرونا اور سیلاب کی وجہ سے آنے والے دباؤ اور سیاسی تنازع میں شدت کی وجہ سے سی پیک کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو گزشتہ دس برس میں متوقع تھے۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ اگر ہم درست منصوبہ بندی کرتے، صحیح پالیسیاں بناتے اور قرض لے کر منصوبے نہ لگاتے تو پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف پاکستان کے لیے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکچ بحال ہونا باقی ہے اور دوسری جانب پاکستان کو تجارتی اور بجٹ خسارے کا بھی سامنا ہے۔
SEE ALSO: چینی قرضے مقروض ممالک کو مزید مشکلات میں ڈال رہے ہیںہارون شریف کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ایڈ ڈیٹا سے منسلک سینئر ریسر چر ڈاکٹر عمار اے ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقتصادی اور صنعتی زون مکمل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مزید چینی سرمایہ کاری رک گئی ۔ اگرچہ بعض حلقوں میں یہ ایک تاثر ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کے بارے میں امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی طرف سے تحفظات کا ا ظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن عمار اے ملک کہتے ہیں کہ سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کی یہ وجہ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عمار اے ملک نے کہا کہ اقتصادی زونز میں پیش رفت نہ ہونے پر چین بھی فکر مند ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کے سی پیک منصوبوں کی وجہ سے چین کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی استحکام بھی ہو۔
عمار اے ملک کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے جب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات خراب ہوتے ہیں تو چین پاکستان کی مدد کے لیے آتا ہے اور ان کی بقول اب بھی چین کو یقین ہے کہ پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے اور ان کی سرمایہ کاری کا نتیجہ نکلے گا۔
ان کے مطابق اب پاکستان کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور چین کے پاکستان پر یقین کو غلط ثابت نہیں ہونے دینا چاہیے۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پاکستان کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
عمار ملک کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی پالیسیوں میں تسلسل آ جائے تو تبھی پاکستان میں سی پیک اور دیگر منصوبوں میں بھی سرمایہ کار ی بڑھ سکتی ہے۔
’مواقع ضائع کیے گئے‘
اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجرتھا لیکن پاکستان نے اس کا فائدہ نہیں اٹھا یا ۔
انھوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں مہنگے توانائی کے منصوبے تعمیر ہونے کے بعد ایک ایسا وقت آیا کہ توانائی کی کمی کے بجائے پیداواری صلاحیت ضرورت سے بڑھ گئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتےہوئے اشفاق حسن نے کہا کہ پاکستان کی سرپلس توانائی کی کھپت صنعتی زونز میں قائم ہونے والی صنعتوں میں کی جانی تھی لیکن پاکستان میں صنعتی زونز کی طرف پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سرپلس توانائی پاکستان کے لیے مسئلہ بن گئی۔
SEE ALSO: اُمید ہے پاکستان کی سیاسی قوتیں استحکام کےلیے اتفاقِ رائے کر لیں گی: چینان کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے دور میں بوجوہ سی پیک کےمنصوبے سست روی کا شکار ہو گئے اوربڑی معاشی تبدیلیوں کے مواقع ضائع ہوگئے۔
چین اس بات کا خواہاں رہا کہ بی آر آئی منصوبے جن ممالک میں مکمل ہوں گے وہاں وہ اپنی بعض صنعتوں کو منتقل کرےگا جن میں مشرق بعید کے کئی ممالک کے ساتھ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بنگلادیش بھی شامل تھے۔
سی پیک کے آغاز پر چین نے کم پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بعض صنعتیں پاکستان منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کےنتیجے میں پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے تھے بلکہ پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوسکتا تھا۔
لیکن پاکستان میں صنعتی زون تعمیر نہ ہونے کے باعث ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول نہیں بن سکا۔ اسی وجہ سے پاکستان چینی سرمایہ کاروں کو راغب نہ کرسکا اور کئی چینی سرمایہ کار اپنی صنعتوں کو کمبوڈیا، لاؤس اور ایتھوپیا منتقل کر چکے ہیں جہاں پیدواری لاگت چین کے مقابلے میں کم ہے۔
اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام ہو گا تبھی چین کا اعتماد بحال ہو گا اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ کریں گے۔