دو بین الاقوامی تنظیموں نے دنیا بھر کے صحافیوں کےبارے میں آگہی پیدا کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے، جنھیں اُن کی پیشہ ورانہ خدمات کی بنا پر ڈیوٹی کے دوران قید کیا گیا۔
کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے واشنگٹن کے نیوزئیم میں، ’پریس اَن کفڈ: فری دِی پریس‘ کا آغاز کیا ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ’فلپ میرل کالج آف جرنلزم‘ کے طالب علموں کے ساتھ اشتراک عمل کے تحت، سی پی جے کی اس مہم میں قید نو صحافیوں کے مقدمات کی نشاندہی کی گئی ہے اور اُن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سی پی جے کی وکالت پر مامور ڈاریکٹر، کرٹنی ریڈش کے حوالے سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک پریس رلیز میں کہا گیا ہے کہ مختلف حکومتوں نے اِن صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران گرفتار کیا، کیوں کہ وہ اُن کے آزادانہ خیالات سے خوف زدہ تھیں۔
بقول اُن کے، ’اِن نو صحافیوں کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے، ہم اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ اُن کی رہائی کے لیے عام رائے بڑھے گی، اور اُن سینکڑوں صحافیوں کی طرف بھی دھیان مبذول ہوگا جنھیں اُن کی حکومتوں نے خاموش کرنے کی کوششیں کی ہیں‘۔
پریس رلیز کے مطابق، یہ صحافی ہیں: چین کے الہام توتی جنھیں 2014ء میں قید کیا گیا؛ سوازی لینڈ کے بھیکی مکھوبو، جو 2014ء سے قید ہیں؛ ایتھیوپیا سے تعلق رکھنے والے ریوت الیمو، جو 2011ء سے قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں؛ آذربائیجان کی خدیجہ اسماعیلوف جو 2014ء میں قید کی گئیں؛ ایران کے جیسن رضائیاں جنھیں 2014ء میں جیل میں ڈالا گیا، ازبکستان کے یوسف رضی مرادوف جو 1999ء سے قید ہیں، مصر کے محمود ابو زید (شاخان) جو 2013ء میں جیل میں ڈالے گئے؛ ویتنام کے تا فونگ تان، جو 2011ء سے قید ہیں؛ اور بحرین کے عمار عبدالرسول جنھیں 2014ء میں قید کیا گیا۔
سی پی جے کے مطابق، یہ نو صحافی مفاد عامہ کو مدنظر رکھ کر خبریں دے رہے تھے، جب کہ اُن پر ملک دشمنی اور بدلہ لینے کے الزامات عائد ہیں۔ دو صحافیوں پر کوئی الزام عائد نہیں پھر بھی وہ قید کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔