کراچی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں شام ہوتے ہی ہوٹلوں اور ریستوران آنے والے نوجوانوں کا اس بری طرح رش لگ جاتا ہے کہ نہ باہر گاڑیاں کھڑی کرنے کو جگہ ملتی ہے نہ ہی اندر بیٹھنے کو کوئی سیٹ۔ خاص کر ایسے ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں یہ مسئلہ ہفتہ اور اتوار کو لازماً پیش آتا ہے جہاں ’شیشہ‘ پیا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ متمول علاقوں کی بات کریں تو ڈیفنس اور کلفٹن میں شیشہ ہر چھوٹے بڑے ہوٹل میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ فٹ پاتھ پر قائم کچھ ٹی اسٹالز اور کافی شاپس پر بھی شیشہ مل جاتا ہے۔ گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد اور دیگر بڑے علاقوں میں بھی شیشہ ایکسٹرا فیسیلیٹی کے طور پر بھی موجود ہے۔
لیکن گزشتہ دو روز سے ان علاقوں میں قائم انہی شیشہ پارلرز یا کیفیز کے خلاف پولیس کا کریک ڈاوٴن جاری ہے۔ کلفٹن، ڈیفنس کے مختلف علاقوں مثلاً بوٹ بیسن، درخشاں، کھڈا مارکیٹ اور دیگر جگہوں پر قائم 15 کیفیز پر پولیس نے اسسٹنٹ کمشنر ساوتھ کے ہمراہ چھاپے مارے اور 40 افراد کو حراست میں لے لیا۔
کریک ڈاوٴن سپریم کورٹ کی جانب سے شیشہ نوشی پر پابندی عائد کئے جانے کے سبب شروع ہوا۔ کریک ڈاوٴن کے دوران بڑی تعداد میں شیشے بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لئے۔ شیشہ کیفیز، پارلر یا سینٹرز کو خبردار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں ریسٹورنٹس، سینٹر، ہوٹل یا پارلر کو سیل کردیا جائے گا۔
لیکن سخت کریک ڈاوٴن کے باوجود شہر کے بے شمار علاقوں میں اب بھی شیشہ یا حقے کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں جیسے صدر کا علاقہ۔ یہاں حقہ یا شیشہ اسی ’رفتار‘ سے فروخت ہورہا ہے جیسے سپریم کورٹ کے احکامات آنے سے پہلے فروخت ہو رہا تھا۔
شیشہ فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے وائس آف امریکہ سے اپنا نام ظاہر کئے بغیر گفتگو میں کہا کہ ’شیشہ اگر نشہ ہے تو سگریٹ اور نسوار بھی نشہ ہے۔ اصل میں اس پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اس کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے پہلے بند کیا جانا چاہئے۔ ہم تو عرصے سے اپنے بزرگوں کی چلم بھرتے اور حقہ گرم کرتے رہے ہیں، کیا اس وقت حقے میں نشہ نہیں ہوتا تھا؟‘
پراپرٹی مالکان کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوگی
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی شیشے پر فوری پابندی کے حق میں ہیں اور اس کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ پابندی کی غرض سے انہوں نے تحریری ہدایات جاری کی ہیں کہ جن لوگوں کی پراپرٹی پر شیشہ کیفیز قائم ہیں وہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مالکانہ حقوق استعمال کریں اور اپنی پراپرٹی پر قائم شیشہ کیفیز بند کروائیں ورنہ پراپرٹی مالکان کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
دوسری جانب کراچی کے ضلع جنوبی کے ڈپٹی کمشنر محمد سلیم راجپوت نے باقاعدہ تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے اپنے ضلع میں شیشہ کلبز کے خلاف کریک ڈاوٴن جاری رکھا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان نے رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو چاروں صوبائی حکومتوں کو شیشہ کیفوں کیخلاف فوری کریک ڈاؤن کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ متعدد شیشہ کیفوں میں منشیات بھی فروخت کی جارہی ہے، لیکن انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔
پابندی کے احکامات چیف جسٹس، جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جاری کئے۔ عدالت نے شیشہ مراکز کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کے بعد یہ احکامات جاری کئے تھے۔
شیشہ نوشی کیوں نقصان دہ ہے؟
شیشہ نوشی انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ حال ہی میں عرب امارات میں ہونے والی عالمی کانفرنس برائے صحت میں بیان کردہ ماہرین کی رائے کے مطابق شیشے کا صرف ایک کش پوری سگریٹ کے مساوی نقصان دہ ہے۔ لہذا، اگر کوئی شخص کئی منٹ شیشہ پیتا ہے تو اسے اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا ایک سگریٹ نوش کو 20سے 30سگریٹ پینے سے ہوتا ہے۔ یہ مقدار صحت کے لئے زہر کے سوا کچھ نہیں۔
نوجوانوں کے لئے شیشہ پرکشش اس لئے ہے کہ اس میں مختلف فلیورز ملائے جاتے ہیں جو روایتی سگریٹ پینے کے مقابلے میں زیادہ ذائقہ مند ہوتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں شیشے کی بدولت نیکوٹین، چارکول، ٹوکسن اور دیگر زہریلے اجزا انسانی جسم میں داخل ہوکر اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے اور نتیجہ میں سانس، دل، گلہ اور دانت کی انتہائی خطرناک بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کی رپورٹ کے مطابق شیشہ پھیپھڑوں کے کینسر، غذائی نالی اوسوفیگس کی خرابی، گیسٹرک اور پیشاب کی بیماریوں کا بھی باعث بنتا ہے۔