"میں 14 سال کا تھا جب پہلی مرتبہ گٹکا کھایا۔ اس کے بعد تقریباً چھ ماہ تک گھر والوں سے چھپ کر یہ کھاتا رہا اور اسی کے ساتھ چھالیہ کا بھی استعمال کیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ ابو کے گزر جانے کے بعد رشتہ دار اور اہل محلہ والدہ سے میری شکایت لگاتے پر میں والدہ کو چھالیہ کھانے کا کہہ کر ہمیشہ قائل کرلیتا۔"
کراچی کا رہائشی 34 سالہ عارف نجی سیکیورٹی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے اور اسے گٹکا کھاتے ہوئے تقریباً 20 برس ہوچکے ہیں۔
عارف کے بقول، "میری دونوں بڑی بہنوں کو علم تھا کہ میں گٹکا کھاتا ہوں لیکن انہوں نے کبھی والدہ کے سامنے اس کا ذکر نہ کیا۔ ایک مرتبہ کپڑے دھوتے ہوئے والدہ نے میری قمیض سے گٹکا برآمد کیا جس کے بعد والدہ نے مار پیٹ بھی کی لیکن اس وقت تک گٹکا کھانا میری عادت بن چکی تھی۔ والدہ کی لعن طعن اور مار پیٹ معمول بن چکی تھی اور پھر کسی شرم یا خوف کے بغیر میں نے گھر میں بھی آزادانہ طور پر گٹکا کھانا شروع کر دیا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
عارف کے بقول، وہ ماہانہ 14 ہزار روپے کماتا ہے جس میں تقریباً آدھی تنخواہ گٹکے کی خریداری میں خرچ ہوجاتی ہے۔ بقیہ رقم وہ گھر کے خرچ کے لیے دیتا ہے۔
ایک عرصے سے گٹکا کھانے کی وجہ سے عارف کا منہ پر سوجن نمایاں ہے اور زبان میں لکنت محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے بات چیت میں بھی مشکل درپیش ہے۔ یہی نہیں کھانے میں معمولی مرچ اور ٹھنڈے مشروبات پینے سے بھی وہ قاصر ہے۔
ایسا صرف عارف کے ساتھ ہی نہیں ہورہا بلکہ ہر وہ شخص جو گٹکے اور اس جیسی دیگر منشیات کا عادی ہے، وہ اس صورت حال سے دوچار ہے۔
گٹکا ایک ایسا نشہ ہے جو چھالیہ، تمباکو، کتھے، چونے اور چند ایک کیمیکل کا مرکب ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو عادی بنا کر امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔
سندھ میں گٹکے کی خرید و فروخت پر حالیہ پابندی کے بعد اس کی قیمت بڑھنے پر عارف شدید پریشان ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گٹکے کی خریداری مشکل ہوگئی ہے اور بلیک میں ملنے والا 'مال' مہنگا مل رہا ہے۔
گٹکے کا استعمال کراچی سمیت اندرونِ سندھ تیزی سے سرائیت کر رہا ہے اور اس کے کھانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے لیکن اس موذی نشے پر حال ہی میں لگنے والی پابندی کے بعد اس کا حصول تو مشکل ہے لیکن عارف اور اس جیسے دیگر لوگ کسی بھی طرح اسے حاصل کر لیتے ہیں۔
کیبنز پر اب گٹکے دستیاب نہیں
ماضی میں بھی گٹکے کی تیاری اور اس کی فروخت پر پابندی لگتی رہی ہے لیکن یہ پابندی ہمیشہ عارضی ثابت ہوئی۔ اس مرتبہ سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو خصوصی اختیارات دیتے ہوئے اس کی بیخ کنی کی ہدایت کی ہے۔
گٹکے پر لگنے والی حالیہ پابندی کے بعد اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ 50 روپے میں ملنے والا گٹکا اب چھپ چھپا کر 100 روپے میں مل رہا ہے، اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے بازاروں اور مختلف سڑکوں کے کنارے موجود پان کے کیبنز پر اب یہ گٹکے دستیاب نہیں۔
گٹکے کی تیاری گھروں اور چھوٹی فیکٹریوں میں ہوتی ہے اور اس کے بنیادی مراکز میں کراچی کے علاقے، کورنگی، لانڈھی، اورنگی ٹاؤن، نیو کراچی، سرجانی ٹاؤن، گھاس منڈی اور پرانا گولیمار نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ٹھٹھہ اور سجاول میں بھی بڑے پیمانے پر یہ تیار کیا جاتا ہے۔
گٹکا کھانے والے افراد دانتوں کے جھڑنے سمیت منہ کے کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔
گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والے ملزمان کے خلاف دفعہ 336 اے کے تحت مقدمہ درج ہوتا تھا جس کے تحت ایک ماہ قید اور 300 سے 500 روپے جرمانہ ہوتا تھا اور یہ جرم قابل ضمانت بھی تھا۔ تاہم اب سندھ ہائی کورٹ نے گٹکا بنانے، اسے فروخت کرنے، ذخیرہ کرنے اور کھانے والوں کے خلاف دفعہ 337 کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 337 کے تحت ملزم کو کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید اور ایک سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
'گٹکا مافیا بلوچستان منتقل ہورہا ہے'
کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کی سربراہی میں پولیس گٹکا مافیا کے خلاف ایکشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُن کے بقول، جب تک گٹکے کی سپلائی لائن منقطع نہیں کی جاتی اس وقت تک اس لعنت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کی طرف سے اس مرتبہ گٹکے کے کارخانوں اور ہول سیل مارکیٹ کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غلام نبی میمن نے بتایا کہ گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف رواں سال 2800 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ جس میں گٹکا بنانے والے عناصر سمیت ہول سیلر بھی شامل ہیں جب کہ گٹکے کی سپلائی منقطع ہونے سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک سال کے دوران لاکھوں کلو گرام گٹکا، مین پوری اور دیگر منشیات پکڑی گئی ہیں اور صرف ضلع وسطی میں ایک لاکھ کلو گرام سے زائد کی ریکوری ہوئی ہے۔
کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ پولیس کے حالیہ آپریشن کے بعد گٹکا بنانے والے مفرور ہوچکے ہیں اور اطلاع آرہی ہے کہ وہ بلوچستان کے شہر حب میں اپنا کاروبار لگانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے گٹکے کی تیاری کے بعد اسے کراچی منتقل کیا جائے۔
اُن کے بقول، کراچی چونکہ گٹکا استعمال کرنے کی بڑی منڈی ہے اس لیے گٹکا مافیا نئے نئے ٹھکانے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم کوشش ہے کہ اس صورت میں بلوچستان حکومت سے مدد مانگیں اور اس کے خلاف کارروائی کریں۔
غلام نبی میمن کے مطابق گٹکا مہنگا ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ حالیہ کارروائی کے بعد اس کے کاروبار کو جھٹکا لگا ہے۔
گٹکے کے خلاف آپریشن کب تک مکمل کرلیا جائے گا؟ اس سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ کئی برسوں سے یہ مہلک بیماری معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اسے دو ماہ یا تین ماہ میں ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے آپریشن جاری رکھا جائے گا جس کی روشنی میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
'گٹکا کھانے والے سب میکوزل فائبروسس کا شکار ہوجاتے ہیں'
کراچی کے دوسرے بڑے اسپتال، سول اسپتال کے شعبہ حلق، ناک اور کان (ای این ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی کے مطابق گٹکا دانتوں کے جھڑنے اور کینسر جیسے امراض کا سبب بنتا ہے۔
اُن کے بقول، سول اسپتال کے شعبہ ای این ٹی میں روزانہ آنے والے مریضوں میں 10 سے 15 فی صد مریض کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں یا انہیں کینسر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عاطف کا کہنا ہے کہ سول اسپتال میں ہر سال تقریباً 500 سے 600 ایسے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جو پان، چھالیہ، گٹکا یا اس جیسی دیگر چیزیں کھانے کے باعث کینسر کے مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی عمریں 30 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عاطف کے مطابق گٹکا اور پان چھالیہ کھانے والے افراد ' سب میکوزل فائبروسس' کا شکار ہوجاتے ہیں، اس میں منہ کی جھلی سوکھ جاتی ہے اور منہ کا کھلنا بند ہوجاتا ہے، اسے پری کینسر کنڈیشنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ جن افراد کو 'سب میکوزل فائبروسس ہوتا ہے ان میں عام افراد کے مقابلے میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کا دس گنا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔
اُن کا کہنا ہے کہ گٹکا کھانے والوں کے منہ میں ابتدائی طور پر چھوٹا سا چھالا بنتا ہے جس کے بعد منہ میں کچھ تبدیلی آتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر کینسر بن جاتا ہے۔
عارف کے منہ میں بھی ظاہری تبدیلی نمایاں ہے اور وہ مصالحہ دار و روغنی چیزیں نہیں کھا سکتا۔ والدہ اور بہنوں کے بے حد اصرار پر وہ علاج کی غرض سے کئی بار سول اسپتال بھی جاچکا ہے لیکن وہ ملازمت کرنے کے لیے گٹکے کو اپنے لیے لازم قرار دیتا ہے۔
عارف کا ماننا ہے کہ گٹکے کے بغیر اس کا ذہن کام نہیں کرتا اور اگر وہ ایک دن بھی یہ نہ کھائے تو اس کا جسم کپکپاتا ہے۔ ڈاکٹروں اور اہل خانہ کے سمجھانے کے باوجود وہ گٹکے کو اپنی زندگی کا اُہم جز تصور کرتے ہیں۔