چار ماہ کے طویل انتظار کے بعد اسپاٹ فکسنگ کیس فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور کل یعنی جمعرات 6 جنوری سے تین رکنی کمیٹی کے روبرو کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہورہی ہے ۔ دنیائے کرکٹ کی نظریں قطر پر مرکوز ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن اس کے پاکستان کرکٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
ٓگزشتہ سال اگست میں انگلینڈ کی سر زمین پر کھیلے گئے لارڈز ٹیسٹ کے دوران تین پاکستانی کھلاڑیوں کپتان سلمان بٹ ، فاسٹ بالرز محمد آصف اور محمد عامر پرانگلش جریدے نیوز آف دی ورلڈ نے کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے ۔اس وقت اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تینوں کھلاڑیوں کے کمروں کی تلاشی بھی لی تھی ۔ان الزامات کی روشنی میں آئی سی سی نے دو دسمبر کو ان کھلاڑیوں کو معطل کر دیا تھا ۔ دوسری جانب کھلاڑیوں پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات لگے اوران پر کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔تاہم تینوں کھلاڑیوں ان الزامات کو بے بنیاد قراردیتے رہے ۔
اس کے بعد سلمان بٹ اور محمد عامر کی جانب سے عارضی معطلی کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں لیکن گزشتہ سال 31 اکتوبر کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے کوڈ آف کنڈیکٹ کمشنر مائیکل بیلوف نے دو روز تک سماعت کے بعد یہ اپیلیں مسترد کر دیں ۔
اب چھ جنوری بروز جمعرات سے ان کھلاڑیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے تین رکنی کمیٹی دوبارہ سماعت شروع کر رہی ہے جو گیارہ جنوری تک جاری رہے گی ۔ کمیٹی کے چیئرمین مائیکل بیلوف ہیں جبکہ باقی دو ممبران میں جنوبی افریقہ کے البائی ساچز اور کینیا کے شردراؤ شامل ہیں ۔ سلمان بٹ کی نمائندگی بھارتی نژاد برطانوی وکیل یاسین پٹیل کریں گے ، محمد آصف نے برطانوی وزیراعظم کے بھائی ایلن کیمرون کی خدمات حاصل کی ہیں جبکہ محمد عامر کی وکالت پاکستانی وکیل شاید کریم کریں گے ۔
تینوں کھلاڑی اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے قطر پہنچ چکے ہیں ۔ روانگی سے قبل محمد عمار نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں پوری امید ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا ۔ اس حوالے سے ان کے وکیل نے بھی تیاری مکمل کر لی ہے ۔ ادھر سلمان بٹ نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور انہیں یقین ہے کہ بہت جلد وہ میدان میں دوبارہ ایکشن میں نظر آئیں گے ۔
اس کیس کے سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کی درخواست پر ون ڈے کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کو اینٹی کرپشن کی قطر میں ہو نیوالی سماعت میں اپنے بیانات قلمبند کرانے کی ہدایت کی ہے ۔ آئی سی سی نے دونوں کھلاڑیوں کو ہدایت کی ہے کہ خود حاضر ہوں یا پھر ٹیلی فونک کانفرنس کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جائے ۔
اس سلسلے میں آئی سی سی ٹریبونل کے سربراہ مائیکل بیلوف نے میڈیا کو بتایا کہ اگر کیس کی کارروائی گیارہ جنوری سے قبل ہی مکمل ہو جاتی ہے تو فیصلہ پہلے بھی سنایا جا سکتا ہے ۔سماعت مقامی وقت کے مطابق روزانہ صبح ساڑھے نوبجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک ہوگی۔
ماہرین کے مطابق کمیٹی جو بھی فیصلہ دے گی وہ پاکستانی کرکٹ کے حق میں بہتر ہو گا ، لارڈز ٹیسٹ میں کھلاڑیوں پر الزامات سے نہ صرف کھلاڑیوں کی بدنامی ہوئی بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ۔
شائقین کا مطالبہ ہے کہ اگر الزامات ثابت ہونے پر ان کھلاڑیوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ خوش آئند عمل ہو گا۔ اس کے نتیجے میں آئندہ کوئی بھی کھلاڑی ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اگر یہ کھلاڑی بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو پھر جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی لازمی ہونی چاہیے ۔