’صفورہ گوٹھ سانحے‘ کے خلاف جمعرات کو کراچی سمیت پورے ملک میں یوم سوگ منایا گیا۔ سندھ اور خاص کر کراچی میں صبح سے شام تک معمولات زندگی معطل رہے، جبکہ واقعے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کو سپرد خاک کردیا گیا۔
بدھ کو وزیراعظم نواز شریف، صوبائی حکومتوں، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور کئی شیعہ تنظیموں کی جانب سے جمعرات کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یوم سوگ کے سبب اہم سرکاری، نیم سرکاری اور نجی عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا، جبکہ نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج رہا۔
کراچی کے بیشتر پیٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشنز، تمام کاروباری مراکز، دکانیں، مشنری اسکول ابند رہے، جبکہ کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر تمام یونیورسٹیز میں ہونے والے پرچے پہلے ہی منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ حکومت سندھ کی جانب سے تعلیمی ادارے کھلے رکھنے کے اعلان کے باوجود بیشتر تعلیمی ادارے بند رہے۔ بشپ صادق ڈینئیل نے بھی گزشتہ شب ہی تمام مشنری اسکول بند رکھنے کا اعلان کردیا تھا۔
شہر قائد میں صبح سے شام تک تمام اہم شاہراہیں سنسنان رہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث دفاتر میں حاضری معمول سے کم رہی۔
تاجر اتحاد کراچی کے صدر عتیق میر کی اپیل پر شہر کے تمام تمام کاروباری مراکز بھی بند رہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ، وندر انڈسٹریل ایریا اور حب انڈسٹریل ایریا بھی آج نہیں کھولے گئے۔ میڈیسن مارکیٹیں بھی بند رہیں۔ تاہم، شام چار بجے کے بعد زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئی۔
سندھ بار کونسل کی اپیل پر وکلاء نے بھی یوم سوگ منایا اور سندھ ہائی کورٹ بار، کراچی بار اور دیگر ماتحت عدالتوں میں وکلا پیش نہیں ہوئے۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
کراچی کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ بھی صورتحال کم و بیش ایسی ہی رہی۔ حیدر آباد، میرپور خاص، سکھر، نواب شاہ، بدین، سانگھڑ، دادو نوشہرو فیروز، میہڑ، جیکب آباد، روہڑی اور دیگر متعدد شہروں میں سوگ کا سماں رہا۔ ان شہروں میں بھی انٹر کے آج ہونے والے امتحانات ملتوی کردیئے گئے۔