سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی بحث کیوں اور نتائج کیا ہوں گے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان۔ فائل فوٹو

پاکستان کی قومی اسمبلی نے بدھ کو ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت ملک میں عدالتی اصلاحات کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔

اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ عدالتی اصلاحات کا عمل شروع کیا جاسکے۔

قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین میں قوانین بنانے اور ان میں ترامیم کا اختیار پارلیمان کو سونپا گیا ہے جب کہ ریاست کے تینوں ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو الگ الگ فرائض اور اختیارات حاصل ہیں۔

اسی طرح آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کی توثیق کا اختیار بھی پارلیمان کو دیا گیا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 2006 میں طے پانے والے میثاق جمہوریت میں آئین کی بالادستی اور ریاست کے تمام ستونوں کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس لیے پارلیمان کسی اور ادارے کو اس کے اختیارات چھیننے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے جب وزیرِاعلیٰ پنجاب کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی حکومتی درخواست کو رد کردیا تھا۔ جس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کو مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل کے لیے حاصل صوابدیدی اختیارات سمیت دیگر امور میں حاصل اختیارات کم کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے جیسے مطالبات کیے جارہے ہیں۔



یہ مطالبات نہ صرف سیاست دانوں بلکہ بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز کی جانب سے بھی سامنے آئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں سنیارٹی کے اصولوں پر اس وقت تک سختی سے عمل کیا جائے جب تک اس بارے میں کوئی اور طریقہ کار وضع نہ کرلیا جائے۔

ججوں کی تقرری اور برطرفی کے عمل کو مزید شفاف بنایا جائے، اس عمل میں ججز کے ساتھ وکلا کی نمائندہ تنظیم یعنی بار، حکومت اور پارلیمنٹ کو بھی مساوی نمائندگی دی جائے۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 اے اور آرٹیکل 209 میں ترامیم ناگزیر ہیں۔

اسی طرح مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل، ان میں مقدمات کے تعین اور ازخود نوٹس لینے میں چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کرکے انہیں عدالت کے پانچ سینئر ججز کو منتقل کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 (2) اور آرٹیکل 191 میں ترمیم کی جائے۔


"تجاویز عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ مضبوط کرنے کے لیے ہیں"

ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے فورم نیشنل جوڈیشل کمیشن میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بار اور سیاست دانوں کی جانب سے دی جانے والی تجاویز سے عدلیہ مزید مضبوط ہو گی اور ججوں کی تقرری اور برطرفی کے فورمز کو مزید جامع بنایا جاسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے عدلیہ کے اختیارات کم کیے جانے کے بارے میں شدید غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت چیف جسٹس کسی بھی عوامی اہمیت یا بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔

اس میں تجویز یہ ہے کہ ہر جج کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہونا چاہیے یہ صرف چیف جسٹس تک محدود نہ رہے۔ دوسرا سپریم کورٹ کے قوانین کے تحت مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔

بار ایسوسی ایشنز ایک عرصے سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ یہ اختیار پانچ سینئر ججز کو ملنا چاہیے۔ اس میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں کیا جارہا بلکہ فرد واحد کے بجائے یہ اختیار ایک سے زائد یعنی پانچ سینئر ججز کو منتقل کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ تنازعے اور عدلیہ پر اعتماد میں کمی کے پیچھے یہی وجہ کارفرما تھی۔ اختر حسین ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ججوں کی تقرری کے عمل میں اس وقت کے طریقۂ کار کے مطابق عدلیہ ہی کو تقریباً تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔ اس میں تجویز یہ ہے کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کرکے اس عمل میں پارلیمان، عدلیہ اور بار کی مساوی نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ اس طریقۂ کار کو مزید شفاف اور جامع بنایا جاسکے۔


"سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کی بحث عدلیہ پر دباو ڈالنے کی کوشش ہے"

تاہم ایسے آئینی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی بھی کمی نہیں جو ان ترامیم میں سے بعض کو غیر ضروری اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کے خیال میں یہ عدلیہ کو جھکانے کے لیے دباؤ کے ہتھکنڈے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کے طریقۂ کار میں تبدیلی اور چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم کرنا ضروری ہے۔ جس کے لیے پارلمیان کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔

جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ میں خالی آسامیوں کو فوری پُر کیا جائے تاکہ عدلیہ میں کیسز کا بوجھ کم ہو اور شہریوں کو انصاف مل سکے۔

جسٹس وجہیہ الدین احمد کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں ہر ادارے کے اپنے اپنے اختیارات اور فرائض معیّن ہیں۔ عدلیہ کے اختیارات پارلیمان استعمال نہیں کرسکتی اور پارلیمان کے اختیارات عدلیہ کو استعمال نہیں کرنے چاہیے۔