سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا حالیہ انٹرویو پاکستان کی سیاست میں موضوعِ بحث ہے جس میں انہوں نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو اگلی حکومت تک مؤخر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم وزیرِ دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق فیصلہ مقررہ وقت پر کرے گی۔
عمران خان نے ٹی وی اینکر کامران خان کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی اہلیت نہیں رکھتے اور آئین میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ آئندہ انتخابات تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔
پیر کو نشر ہونے والے اس انٹرویو کے دوران عمران خان کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اسی صورت ہونی چاہیے جب یہ (موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں) الیکشن جیت کر آئیں۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا عمران خان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب رواں برس نومبر میں ان کی ملازمت کی مدت مکمل ہو رہی ہے۔
عمران خان کا اپنے انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر شفاف انتخابات ہوتے ہیں اور موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں الیکشن جیت جاتی ہیں تو پھر یہ اپنا آرمی چیف لگائیں۔
ادھر وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے عمران خان کے اس انٹرویو پر ایک ٹویٹ میں اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ عمران خان اقتدار کی ہوس میں اتنا گر چکے ہیں کہ آرمی چیف کے تقرر کو انتخابات اور سیاست سے نتھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہم قومی فیصلے سیاسی مفادات سے مشروط نہیں ہوتے۔ حکومت نئے آرمی چیف کے تقرر کی ذمہ داری کو مقررہ وقت پر آئین اورادارے کی بہترین روایات کو مد نظر رکھتے ہوئےادا کرے گی۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ نئے آرمی چیف کے تقرر میں ابھی تین ماہ باقی ہیں اور حکومت اس ضمن میں جلد بازی میں فیصلہ کرے گی اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ کرے گی۔
عمران خان نے چند روز قبل بھی ایک جلسے سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف اپنا پسندیدہ آرمی چیف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اس بیان پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوج کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ فوج میں بھی عمران خان کے اس "انتہائی غیر ضروری بیان" پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
عمران خان کے حالیہ بیان پر صحافی طلعت حسین کہتے ہیں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ مدتِ ملازمت میں ایک اور توسیع قبول کر لیتے ہیں چاہے وہ جتنی بھی طویل ہو، تو یہ ان کے کریئر کی دوسری بڑی غلطی ہو گی۔ ان کے بقول جنرل باجوہ کی پہلی بڑی غلطی پہلی مرتبہ مدتِ ملازمت میں توسیع لینا تھی۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے عمران خان کے ایک پرانے انٹرویو کا کلپ شیئر کیا جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک کو انفرادی شخص نہیں ادارے چلاتے ہیں اور اگر وہ سربراہ ہوتے تو وہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ کرتے۔
صحافی عمران ریاض خان کہتے ہیں کہ لگتا ہے تجربہ ناکام ہونے کے بعد ہوا بدلنے والی ہے۔ اب جلد ہی پی ڈی ایم گالم گلوچ شروع کرنے والی ہے۔
پیر کو نشر ہونے والے انٹرویو میں عمران خان نے مزید کہا کہ ملک غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے اور سیلاب کی وجہ سے مشکلات پیچیدہ ہو گئی ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ'' میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے کوئی بات تو کرے کہ یہ الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ عمران خان نے ملک کے سیاسی مستقبل اور جمہوریت کی بحالی کا ایک عملی فارمولا پیش کیا ہے۔ اس فارمولے پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی اقتصادی حالت مزید سیاسی عدم استحکام کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔ انتخابات کرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ اسٹیٹس برقرار رکھا جا سکتا ہے۔